محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کرایہ بھی وہی کمپنی وصول کرتی ہے، بیس سال (یا اس کے علاوہ جو بھی کوئی مدت فریقین باہم طـے کرلیں )کے بعد وہ پل یا سڑک اس ملک کے قبضہ میں آجاتی ہے، اس طریقہ سے اس ملک کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کاسرمایہ (Capital) اور محنت دونوں ہی بچ جاتے ہیں اور ایک نئی تعمیر وجود میں آجاتی ہے، یہ معاملہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کیا جارہا ہے، جیسے ہندوستان میں سوپر ہائیوے، بروڈہ سے احمدآباد اسی عقد کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ منفعت کے ذریعہ اجرت کی ادائیگی تمام فقہاء کے نزدیک جائزہے، لہذا اگربی،او ٹی (B.O.T) میںبھی منفعت ہی کو اجرت بنایا جائے اور اس طرح بی، او، ٹی (B.O.T) کا معاہدہ کیا جائے تو شرعاً جائز ہوگا ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : إجارۃ المنفعۃ بالنفعۃ تجوز إذا اختلفا جنساً کاستئجار سکنی دار بزراعۃ أرض، وإذا اتحدا کإجارۃ السکنی بالسکنی واللبس باللبس والرکوب بالرکوب ونحو ذلک ۔ (رد المحتار : ۹/۸۵ ، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : أن لا تکون الأجرۃ منفعۃ ہي من جنس المعقود علیہ کإجارۃ السکنی بالسکنی والخدمۃ بالخدمۃ ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب الأول في تفسیر الإجارۃ) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : حتی صح أجرۃ ما لا یصح ثمناً أیضاً کالمنفعۃ فإنہا لا تصلح ثمناً وتصلح أجرۃ إذا کانت مختلفۃ الجنس کاستئجار سکنی الدار بزراعۃ الأرض وإن اتحدا جنسہما لا یجوز کاستئجار الدار للسکنی بالسکنی وکاستئجار الأرض للزراعۃ بزراعۃ أرض أخری لأن المنافع معدوم ۔ (۶/۷۹ ،کتاب الإجارۃ)(اسلام کا قانون اجارہ:۴۱۲)