محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۴-…کرایہ دار کو جس جگہ قبضہ دینا طے ہوا تھا،اگر اس جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قبضہ دیا گیا تو بھی کرایہ دار پراس کا کرایہ لازم نہیں ہوگا۔ جیساکہ علامہ شامیؒ نے ان شرائط کو اس طرح بیان فرمایا ہے ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘ :قال في النہایۃ : وہذہ مقیدۃ بقیود: أحدہا: التمکن فإن منعہ المالک أو الأجنبي أو سلم الدار مشغولۃ بمتاعہ لا تجب الأجرۃ ۔ الثاني: أن تکون صحیحۃ فلو فاسدۃ فلا بد من حقیقۃ الانتفاع۔الثالث: أن التمکن یجب أن یکون في محل العقد، حتی لو استأجرہا لکوفۃ فأسلمہا في بغداد بعد المدۃ فلا أجر۔ الرابع : أن یکون متمکناً في المدۃ، فلو استأجرہا إلی الکوفۃ في ہذا الیوم، وذہب بعد مضي المدۃ بالدابۃ ولم یرکب لم یجب الأجر لأنہ إنما تمکن بعد مضی المدۃ ۔ (۹/۱۴، کتاب الإجارۃ) ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘: وتسلیم المأجور شرط في لزوم الأجرۃ یعني تلزم الأجرۃ اعتباراً من وقت التسلیم، فعلی ہذا لیس للآجر مطالبۃ أجرۃ مدۃ قبل التسلیم وإن انقضت مدۃ الإجارۃ قبل التسلیم لا یستحق الأجر ۔ (۱/۵۴۵ ، کتاب الإجارۃ)