محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ سرٹیفکٹ حکومت کے ذمہ دین کا وثیقہ ہے، اب خود حکومت مدتِ مخصوصہ کے بعداس ۱۰۰؍روپئے کے وثیقہ کو ،۱۱۰؍روپئے میں لیتی ہے ،تو گویا وہ دین پر دس فیصد زیادتی ادا کررہی ہے جو شرعاً واضح طورپر سود ہے۔ اوراگر اس سرٹیفکٹ کا حامل یہ وثیقۂ دین بازارِ حصص میں اس کی اصل قیمت سے زائد پر فروخت کرتاہے ، تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنا دین زیادہ قیمت پر دوسرے کو فروخت کررہا ہے ، اور یہ معاملہ بھی سودی ہونیکی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا: (۱) ما فی ’’الکتاب‘‘: لقولہ تعالی:{یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا لربوا أضعافاً مضاعفۃ} ۔ [آل عمران : ۱۳۰] ولقولہ تعالیٰ : {أحل اللہ البیع وحرم الربوا}۔ [سورۃ البقرۃ : ۲۷۵] ما فی ’’ الحدیث‘‘: عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’ کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا ‘‘ ۔ (اعلاء السنن :۱۴/۵۰۱،کتاب الحوالۃ ، تکملۃ فتح الملہم :۱/۵۷۵، کتاب المساقات والمزارعۃ ، وکذا في فیض القدیر :۹/۴۴۸۷، رقم الحدیث : ۶۳۳۶، وکذا في الجامع الصغیر للسیوطي :ص۳۹۴ عن علي، رقم الحدیث : ۶۳۳۶) ما فی ’’ اعلاء السنن‘‘: عن علي أمیر المؤمنین مرفوعاً: ’’کل قرض جر منفعۃ فہو ربا ‘‘ ۔۔۔۔۔ وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہو حرام ۔ (۱۴/۵۶۶) ما فی ’’ السنن لأبی داود‘‘: عن جابر قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ۔ (۲/۲۱۷ ، الصحیح لمسلم : ۲/۲۷ ، مشکوٰۃ المصابیح : ۱/۲۴۴) ما فی ’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘: عن عبد اللہ بن حنظلۃ غسیل الملائکۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’درہم رباً یأکلہ الرجل وہو یعلم أشد من ستۃ وثلاثین زنیۃ ‘‘ ۔ رواہ أحمد والدارقطنی ۔=