محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نوٹ:- مشتری جس چیز کو بھی بغیر دیکھے ٹیلی فون، انٹر نیٹ اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خریدے، اس کو نہ دیکھنے کی وجہ سے خیارِ رؤیت، اور عیب کی صورت میں خیارِ عیب حاصل ہونا چاہیے ۔ (۱) ------------------------------ =ما فی ’’مجموعۃ الفتاوی لإبن تیمیۃ‘‘: إنما تنعقد بکل ما دل علی مقصودہا من قول أو فعل، فکل ما عدہ الناس بیعاً وإجارۃً فہو بیع وإجارۃ ، وإن اختلف اصطلاح الناس في الألفاظ والأفعال، ولیس لذلک حد مستمر، لا في شرع ولا في لغۃ، بل بتنوع اصطلاح الناس ۔ (۲۹/۸) (۱) ما فی ’’الحدیث‘‘: عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من اشتری شیئاً لم یرہ فہو بالخیار إذا رآہ‘‘۔ (سنن الدارقطني:۳/۵،کتاب البیوع) ما فی ’’البحر الرائق‘‘: شراء ما لم یرہ جائز ولہ أن یردہ إذا رآہ وإن رضي قبلہ۔’’کنز‘‘۔ قولہ: (شراء ما لم یرہ جائز) أي صحیح لما رواہ ابن أبي شیبۃ والبیہقي مرسلاً عن مکحول مرفوعاً: ’’من اشتری شیئاً لم یرہ فلہ الخیار إذا رآہ شیئاً إن شاء أخذہ وإن شاء ترکہ‘‘۔ (۶/۴۲،کتاب البیع، باب خیار الرؤیۃ، سنن الدارقطني:۳/۴،کتاب البیوع) ما فی ’’البحر الرائق‘‘: من وجد بالمبیع عیباً أخذہ بکل بالثمن أو ردہ۔ ’’کنز‘‘۔ قولہ: (من وجد بالمبیع عیباً أخذہ بکل الثمن أو ردہ) لأن مطلق العقد یقتضي وصف السلامۃ فعند فواتہ یتخیر کیلا یتضرر بلزوم ما لا یرضی بہ۔اھـ۔ (۶/۵۸،۵۹)