محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۲- …اگر ملازم اس فنڈ سے کسی بیمہ کمپنی میں حصہ لے، تو کمپنی کے فنڈ کی رقم پر قابض ہو نے کی وجہ سے ملازم کا قبضہ مان لیا جائے گا، کیوں کہ وہ کمپنی اس ملازم کی وکیل ہوگی، اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ کہلاتاہے (۱)، اور فنڈ کی رقم پر ہر سال زکوۃ واجب ہوگی، اس طرح ملک ملکِ تام ہوگی ۔ (۲) ------------------------------ =ما في ’’ السنن لأبي داود ‘‘ :وقال النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ولیس في مال زکوۃ حتی یحول علیہ الحول ۔ (ص : ۲۲۱ ، کتاب الزکاۃ ، سنن الدار قطني : ۲/۹۰ ، السنن الکبری : ۴/۱۶۰ ، کتاب الزکاۃ ، السنن لإبن ماجہ : ۱۲۸، کتاب الزکاۃ ، المؤطا للإمام محمد : ص۱۷۴، کتاب الزکاۃ ، نصب الرایۃ : ۲/۳۳۴ ، کتاب الزکاۃ) (۱) ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : لأن الوکیل في حق الحقوق بمنزلۃ المالک۔ (۴/۳۲۶ ، کتاب الوکالۃ) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما شروط وجوبہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ومنہا کون المال نصاباً) فلا تجب في أقل منہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ومنہا الملک التام) ۔ (۱/۱۷۱؍۱۷۲ ، کتاب الزکاۃ)