ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اسی حالت کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے زاہدنہ (1) داشت تاب جمال پریر خاں کنجے گرفت و ترس خدارا بہانہ ساخت بہرحال ایسا ہوتا ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ ان چاروں سمتوں کی جانب دیکھنا بہت کم کر دیا جائے اور اوپر کے دیکھنے میں گرنے کا اندیشہ ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا پس تجربہ عقل و نقل سب سے معلوم ہو گیا کہ حفاظت اور امن کی سمت سمت تحت (2) ہے ۔ بعض احمقوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تمام وقت فضولیات ہی میں برباد کرتے ہیں ۔ مثلا اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ جناب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں آپ کی کیا تحقیق ہے ۔ کوئی اس عقلمند سے پوچھے کہ تجھ کو حضرت معاویہ کے معاملہ کی کیا پڑی تو اپنا معاملہ (3) درست کر ۔ حکایت : مولانا محمد نعیم صاحب لکھنوی فرنگی محلی کے پاس ایک رنگریز آیا کہنے لگا حضرت معاویہ کے معاملہ میں آپ کی کیا تحقیق ہے ۔ مولانا نے فرمایا کہ میاں تم جا کر کپڑے رنگو ۔ جب تمہارے پاس حضرت معاویہ کا مقدمہ آئے گا تو لینے سے انکار کر دینا اور کہہ دینا کہ میں نے اس کی تحقیق نہیں کی تھی ۔ مگر مجھے کسی نے بتلائی بھی نہیں ۔ حکایت : ایک اور صاحب ایک مولوی صاحب کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدین کی بابت دریافت کرتے ہوئے آئے کہ وہ ایماندار تھے یا نہیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ تم کو نماز کے فرائض معلوم ہیں یا نہیں ۔ کہنے لگا کہ نہیں ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ غضب کی بات ہے کہ نماز جس کا سوال سب سے اول قیامت میں ہو گا ۔ اس کے وہ فرائض جن سے دن میں پانچ مرتبہ کام پڑتا ہے ۔ اور جن کے معلوم نہ ہونے سے احتمال ہے کہ وہ فوت ہو جائیں تو نماز ہی نہ ہو ان کی تم کو خبر نہیں ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے والدین کا ایمان جس کی بابت یقینا ہم سے قیامت میں سوال ہو گا نہ دنیا کا کوئی کام اس علم پر ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) زاہد پری چہرہ حسینوں کے جمال کی تاب نہ لا سکتا تھا ۔ ایک گونہ اختیار کیا اور خدا کے خوف کو بہانہ بنا لیا ۔ (2) نیچے کی جانب 12 (3) جو خدا اور رسول کے ساتھ ہے کتنے فرائض و واجبات ادا کئے ، کتنے چھوڑے ۔ کتنے حرام و گناہ سے بچے ۔ کتنے سے نہیں ۔