ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اپنے ہی کام کے لئے پیدا ہوتے ہیں ان کے متعلق تربیت نہیں ہوتی ۔ مجذوبین ان ہی میں ہوتے ہیں گو بعض غیر مجذوبین بھی ایسے ہوتے ہیں ان کی یہ شان ہوتی ہے ؎ احمد تو عاشقی بمشیخت تراچہ کار دیوانہ باش سلسلہ شد شد نشد نشد ( احمد تم تو عاشق ہو تم کو پیر بننے سے کیا مطلب بس ان کے دیوانے رہو سلسلہ ہو ہو نہ ہو نہ ہو ) بخلاف سالکین کے کہ ان کی حالت ان کی حالت کے بلکل خلاف ہے ان کی یہ حالت ہے کہ ؎ خاص کند بند مصلحت عام را ( عام لوگوں کی ملصحت کو بندہ خاص طور سے لے لیتا ہے ) مجذوبین کے فیض کا غیر اختیاری ہونا ہاں مجذوبین سے بھی ایک قسم کا فیض ہوتا ہے جو بلا ان کے اختیار کے محض وجود باوجود کی بدولت ہے ۔ سو اس کے لئے بھی عقل کی ضرورت نہیں ۔ عقل کی ضرورت اس فیض کے لیے ہے جو بااختیار ہو ۔ غیر اختیاری فیض کی مثال آفتاب کا نور ہے کہ گو آفتاب قصد نہ کرے لیکن اس کا نور عالم کو پر نور ضرور کرے گا اسی طرح اللہ کے نیک بندے جہاں کہیں ہوتے ہیں ان کی برکات عالم کو منور ضرور کرتی ہیں ۔ اسی برکت کی نسبت ارشاد خداوندی ہے ۔ ما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم ( نہیں ہیں اللہ تعالی کہ ان لوگوں کو عذاب دیں اس حالت میں کہ آپ ان میں موجود ہوں ۔ تو آپ کی برکت سے کافروں سے عذاب ہٹ گیا ) جیسا کبھی اس کا عکس بھی ہوتا ہے کہ بدکاروں کی بدولت اچھے لوگ تباہ و ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کا بیان کہ دیندار کو خدا تعالی کی مخالفت پر غیظ و غضب کا ہونا لازم ہے اور یہ حمیت دین ہے نہ کے تعصب جیسا آج کل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نہ سمجھنا چاھیے کہ اس سے پہلا قاعدہ ٹوٹ گیا کیونکہ وہ اچھے لوگ جو کہ ان ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ حق تعالی کے سخاوت والے وجود سے