ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
روح کو مفارقت جسم کے بعد جسم کو صدمہ دینے سے کس قسم کی تکلیف ہوتی ہے ہاں دوسرے دلائل سے معلوم ہوا کہ روح کو مفارقت جسم کچھ 1؎ تاذی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ بعض نصوص میں ہے کہ مردہ کی ہڈی توڑنا ایسا ہے جیسا زندہ کی ہڈی توڑنا جس سے ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ ایسے فعل سے روح کو الم ہوتا ہے مگر جس قسم کا الم روح کے تعلق مع الجسم 2؎ کی حالت میں ہڈی توڑنے سے روح کو ہوتا ہے ۔ وہ الم نہیں ہوتا اس کو ایک مثال کے ضمن میں سمجھنا چاہیے کہ مثلا زید کے بدن کو مارا جائے تو اس کو تکلیف ہو گی اور اگر زید کی رضائی اتار کر چولھے میں رکھ دی جائے تب بھی تکلیف ہوگی مگر دونوں تکلیفیں جدا جدا ہیں پس روح کے مفارق ہونے کے بعد روح کو ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے رضائی جلانے سے زید کو ہوئی اور اس تکلیف کی وجہ بھی وہی تعلق سابق ہے جو بدن کے ساتھ اس کو تھا وہ تعلق اس کو مستحصر ہوتا ہے اس لئے تکلیف ہوتی ہے ۔ 3؎ موت بڑے آرام کی چیز ہے اور اس پر ایک عجیب حکایت خلاصہ یہ ہے کہ جب روح مفارق ہو جاتی ہے تو کوئی الم 4؎ نہیں رہتا اس وقت ایک لطیفہ یاد آیا ایک طبیب کی تعریف کی گئی کہ یہ بڑے اچھے حکیم ہیں ان کے علاج سے مرض ہی نہیں رہتا یعنی مریض ہی نہیں رہتا جو مرض رہے کیونکہ مرض نہ رہنے کی دو صورتیں ہیں یا تو مریض رہے اور تندرست ہوجائے یا یہ کہ مریض ہی چل دے جیسے کسی افیونی کی ناک پر مکھی آ بیٹھی اس نے اڑا دیا وہ پھر آ بیٹھی جب کئی بار اڑانے سے نہ گئی تو اس نے چھری لے کر ناک کاٹ ڈالی اور کہا وہ اڈا ہی نہیں رہا جس پر اب بیٹھے گی ۔ خلاصہ یہ کہ جب آدمی مر ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ تکلیف ظاہری 2؎ روح کے جسم سے پورے تعلق کی ۔ 3؎ مگر یہ تکلیفیں بھی سابق قسم کی ظاہری ہیں اور جو قبر کے عذاب کی تکلیف ہے وہ قسم ہی اور ہے وہ اول روح کو تابع ہو کر جسم کو ہے اور یہ اول جسم کو پھر تابع ہو کر روح کو تھی اب روح تابع نہیں رہی اس لئے دنیوی تکلیفوں کا حال یہ ہے اس کی تفصیل حضرت کی کتاب المصالح العقلیہ میں ہے ۔ 4؎ دنیا والی کوئی تکلیف نہیں رہتی ۔