ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
شئت فانہ لا مکرہ لہ کہ یوں دعا نہ مانگو کہ اے خدا اگر آپ چاہیں تو ہم پر رحم فرمائیے اس واسطے کہ خدا تعالی پر کوئی اکراہ و جبر کرنے والا نہیں ہے ۔ صاحبو دیکھئے ظاہر نظر میں مشیت پر موقوف کر کے دعا مانگنا 1؎ ادب معلوم ہوتا ہے لیکن واقعہ میں سخت بے ادبی ہے لیکن کسی کی نظر اس بے ادبی تک نہیں پہنچ سکتی ۔ یہ نور نبوت اور وحی کی محتاج ہے اور وجہ اس کے داخل بے ادبی ہونے کی یہ ہے کہ درخواست میں مشیت کی قید لگانے کی ضرورت تو اسی وقت ہوتی جب کہ خدا تعالی میں مجبور ہونے کا احتمال بھی ہوتا اس لئے یہ قید لگاتے کہ اللہ تعالی پر دباؤ نہ پڑے ۔ یہاں یہ بات کہاں تم دس ہزار دفعہ مانگو اور دعا کرو وہ چاہیں گے قبول کر لیں گے یا رد کر دیں گے ۔ پھر کیوں تم قید لگاتے ہو میں سچ کہتا ہوں کہ اگر دنیا بھر کے عقلاء جمع ہو کر غور کرتے تو اس دقیقہ 2؎ تک نہ پہنچتے جہاں حضور ﷺ پہنچے ہیں ۔ رجوع بجانب سرخی ( آدمی کو اپنے عمل پر ناز نہ کرنا چاہیے ) اور جب خدا تعالی مجبوری سے بالکل پاک ہیں تو اگر تم کو توفیق روزہ رکھنے اور تراویح و قرآن پڑھنے کی نہ دیتے تو تم کیا کر سکتے تھے اسی لئے فرمایا کہ اولہ رحمۃ کیونکہ صوم وغیرہ کی توفیق دینا عبادت کی توفیق دینا بہت بڑی رحمت ہے ۔ رجوع بجانب سرخی ( فضائل رمضان کا بیان ) اور چونکہ ارشاد خداوندی ہے کہ ان حسنات یذھبن السیئات کہ نیکیوں سے برائیاں معاف ہو جاتی ہیں تو جب اول رمضان میں توفیق ہو جانے کی وجہ سے اعمال نیک شروع ہو گئے تو ان سے گناہ معاف ہونے شروع ہوئے جب ان کی بدولت گناہ معاف ہو گئے تو وسط رمضان مغفرت ہوا اسی کو فرماتے ہیں و اوسطہ مغفرۃ ( اور اس کا درمیان بخشش ہے ) اور ظاہر ہے کہ گناہوں کا معاف ہو جانا یہی دوزخ سے بچنا ہے ۔ تو اس پر متفرع ہو کر یہ ارشاد بھی صحیح ہوا کہ و آخرہ عتق من النیران ( اور اس کا آخیر آگ سے آزادی ہے ) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ کہ مرضی پر چھوڑ دیا ۔ 2؎ باریکی ۔