ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کہ اگر ایسا ہو گا تو اس کام کو ہم انجام دیں گے ۔ غرض فوج موقوف کر دی گئی یہ خبر مشہور ہوئی تو کوئی غنیم آ چڑھا بادشاہ نے مولویوں سے خبر کی ۔ یہ لوگ کتابیں لے کر پہنچے اور وہ وعظ و نصیحت سنایا وہ کیوں سننے لگا تھا ۔ آخر ناکام واپس آئے اور بادشاہ سے کہا کہ صاحب وہ بڑا نالائق ہے ۔ مانتا ہی نہیں خیر پھر آپ ملک چھوڑ دیجئے ۔ آپ کا ملک گیا اس کا ایمان گیا ۔ اس حکایت کو پیش کر کے کہا کرتے ہیں کہ اگر مولویون کے کہنے پر چلیں گے تو گھر بار سب چھوڑ دیں ۔ صاحبو اس افواہی حکایت کی تو کچھ اصل ہی نہیں ہے جس کا جواب دیا جائے ۔ لیکن اصل اعتراض کی نسبت کہتا ہوں کہ آپ آ کر کسی عالم کے پاس رہے ہی نہیں اس لئے آپ کو اس قدر وحشت و اجنبیت ہے چند روز تک آ کر کسی عالم کے پاس رہیے تو ان شاء اللہ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو مولوی کیا تعلیم دیتے ہیں ۔ امراض روحانی کے علاج کے لئے چند روز کا نکالنا کافی ہے اور اگر آپ کہیں کہ ہم اتنا وقت کہاں سے لائیں تو میں کہوں گا کیا آپ امراض جسمانی کی ضرورت سے رخصت لیتے ہیں یا نہیں اور اس رخصت میں تین تین یا چار چار ماہ گنوا دیتے ہیں ۔ یا نہیں تو جب امراض جسمانی کے لئے ایک انگریزی سول سرجن کے کہنے سے چار مہینے فضول گنوا دیتے ہیں تو امراض روحانی کے علاج کے لئے ایک عربی سول سرجن کے کہنے سے بجائے چار مہینے کے چالیس ہی دن اس کے پاس فارغ ہو کر رہ لو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ معتقدانہ رہو بلکہ ممتحانہ رہنے کی اجازت ہے ۔ ہاں (1) معاندانہ طور پر نہ رہو اب اس سے زیادہ اور کیا آسانی ہو گی کہ عمر بھر میں سے صرف چالیس دن مانگے جاتے ہیں واللہ اگر آپ ایسا کر لیں تو قریب قریب تمام سوالات کے جوابات خود بخود بدوں مناظرہ کے آپ کی سمجھ میں آ جائیں اور جب آپ چلنے لگیں تو اس وقت آپ سے پوچھا جائے گا کہ آیا یہ کہنا صحیح تھا یا نہیں کہ اے (2) لقائے تو جواب ہر سوال مشکل از تو حل شود بے قلیل و قال ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) مخالف اور دل سے برا جاننے والا بن کر (2) اے وہ صاحب کہ آپ کی ملاقات ہر سوال کا جواب ہے اور ہر مشکل آپ سے خود بخود حل ہو جاتی ہے بغیر اس کے کہ عرض کیا جائے اور جواب ملے ۔ مگر ان صاحب کا صحیح بزرگ ہونا ضروری ہے جہاں یہ بات نہ پیدا ہو سمجھ لیجئے کہ وہ نیک تو سہی مگر بزرگ نہیں ۔