ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کے اسباب اختیاری میں یعنی اللہ تعالٰی کی عظمت اور اس کے عذاب کا مراقبہ سو اس کے کرنے سے عادۃ اللہ یونہی جاری ہے کہ ندامت اور تالم قلب جو حقیقت میں توبہ ہے پیدا ہو جاتی ہے ۔ لہذا توبوا کا حکم دیا گیا چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ والذین اذافعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم ذکروااللہ فاستغفرو الذنوبھم مطلب یہ کہ اگر ان سے گناہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالٰٰی کی عظمت اور اس کے عذاب کویاد کرتے ہیں یہاں پر ذکرو االلہ میں مضاف محزوف ہے ۔ یعنی ذکرو اعذاب اللہ وعظمۃ اللہ اور واقعی اللہ تعالٰی کی عظمت ایسی ہی چیز ہے کہ اس کے یاد رکھنے سے نافرمانی نہیں ہوسکتی اور وہ ہے بھی قابل یاد رکھنے کے پس اس کو دل سے بھلا کر اس کی نافرمانی پر کمر باندھ لینا بڑی بے باکی کی بات ہے توبہ میں تاخیر نہ کرنا چاہیئے اور فرصت کو غنیمت سمجھنا چاہیئے اور اس کا بیان کہ جس کو صحت اور ضروری سامان خرچ حاصل ہے اس کو گویا یا دنیا کی تمام نعمتیں حاصل ہوگئیں بعضے منتظر رہتے ہیں کہ فلاں کام کرکے توبہ اور تدارک کرلیں گے حالانکہ ممکن ہے کہ اس کو موانع کے ہجوم سے اتنی مہلت ہی نہ ملے اس لئے اس وقت کے امکان اور فراغت کو غنیمت سمجھو اور جب یہ معلوم ہوا کہ خدا تعالٰی کی عظمت اور اس کے عذاب کا مراقبہ کرنے سے توبہ نصیب ہوتی ہے تو اب دوسری بات قابل غور ہے کہ اس مراقبہ کے لئے بھی فرصت اور فراغت کی ضرورت ہے بعض لوگ اس فراغت کی بھی قدر نہیں کرتے حالانکہ وہ بہت بڑی غنیمت چیز ہے حدیث شریف میں ہے اغتنم خمسا قبل خمس اور ان میں سے ایک یہ ہے فراغک قبل شغلک مشغول آدمیوں کی حالت میں غور کرنے سے فراغ کی قدر معلوم ہوتی ہے وہ بیچارے ہر وقت بلا میں مبتلا ہیں ان کو کوئی وقت فرصت کا اور ایسے سوچ کا نہیں ملتا بس یہ حالت ہے کہ چومیرو مبتلا میرو چو خیزد مبتلا خیزو