ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کی تعلیم کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اسی خیال کا اثر ہے جس کے باعث حضور کی تعلیم پر کفایت نہ ہوئی ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جاہل عابد جس شوق سے وظیفہ یا نفلیں پیر کی بتلائی ہوئی پڑھتے ہیں ۔ قرآن شریف اور پانچ وقت کی نماز اس شوق سے نہیں پڑھتے ۔ حکایت : ایک شخص نے مجھ سے فخرا کہا کہ اگرچہ کسی وقت کی نماز قضا ہو جائے لیکن پیر کا بتلایا ہوا وظیفہ کبھی قضا نہیں ہوتا اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور سے اس قدر تعلق نہیں ہے جس قدر کہ پیر سے ہے ۔ اگرچہ یہ ضرور ہے کہ اگر پیر سے تعلق نہ ہو تو حضور سے کم تعلق ہو گا لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے بھی بڑھ جائے ۔ گر فرق (1) مراتب نہ کنی زندیقی غرض یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ الہام بلا واسطہ ہے اور وحی بواسطہ ہے تو جس میں واسطہ کم ہو گا اس میں زیادہ قرب ہو گا ۔ مگر شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ تعلیم بواسطہ تعلیم بلا واسطہ سے افضل ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ تعلیم بواسطہ میں واسطہ کس کا ہے ۔ اگر واسطہ کسی معمولی شخص کا ہو تو بے شک بلا واسطہ تعلیم افضل ہے لیکن جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا واسطہ ہے تو اتنے بڑے واسطہ کے ذریعہ سے جو تعلیم ہو گی وہ افضل ہو گی ۔ علم بواسطہ وحی کے علم بلا واسطہ سے افضل ہونے کا راز اور راز اس میں یہ ہے کہ جو علم بلا واسطہ وحی کے ہو اس میں غلطی کا احتمال بوجہ نقصان استعداد (2) کے زیادہ ہے اور بواسطہ وحی تعلیم میں غلطی کا احتمال نہیں ہے ۔ رہا حضور سے ہم تک پہنچنے کا واسطہ سو اس میں چونکہ ثقات (3) ہیں ۔ ان میں غلطی کا احتمال نہیں ہے ایک تو یہ تفاوت ہے دوسرے ایک لطیف تفاوت ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا تعالی نے رحمت بنا کر بھیجا ہے تو جو تعلیم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطہ سے ہو گی اس میں ابتلا (4) کا احتمال نہ ہو گا ۔ برخلاف بلا واسطہ کے اس میں احتمال ابتلاء کا ہوتا ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اگر مرتبوں کا فرق نہ کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے ۔ (2) حاصل کرنیکی قابلیت کے کم ہونیکی وجہ سے (3) بھروسہ کے یعنی اگر اتنے اتنے ہیں کہ عقل ان کے جھوٹا ہونے کو محال سمجھے تو یقینی ہے اگر دو دو یا زائد ہوں تو دو کی شہادت ہر جگہ معتبر ہے اگر کہیں ایک بھی رہ جائے تو اس کے لئے نیک اور سچا ہونا شرط ہے وہ بھی بھروسہ کا ہے ۔ (4) غلطی میں پڑنے کا اور امتحان کا