ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کی تین صفتیں اس آیت میں بیان کی گئی ہیں ۔ اور ان رسول سے مراد ہمارے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اس لئے کہ داعی (1) حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ یہ رسول ان دونوں حضرات کی اولاد میں ہونا چاہیے ۔ اور ہر چند کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ بھی متعدد انبیاء ہوئے مگر وہ بسلسلہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ہوئے ہیں ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سلسلہ میں ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں ۔ لہذا آپ ہی مراد ہوئے اور دیگر دعاؤں میں بعثت رسول کی دعا کرنا ایک بڑی رحمت (2) کاملہ کا مانگنا ہے ۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یوں کہتے کہ ان کو پاک کیجئے اور ان کو کتاب دیجئے اور ان کو قبول کجئے ۔ تعلیم بواسطہ ء وحی تعلیم بلا واسطہ سے افضل ہے لیکن تعلیم بواسطہ وحی اس تعلیم سے افضل ہے جو کہ بلا واسطہ وحی کے بذریعہ الہام کے ہو اگرچہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم بلا واسطہ زیادہ قرب کا ذریعہ ہے اسی وجہ سے اکثر عوام اور بعض خواص کی یہ رائے قائم ہو گئی ہے کہ اور یہاں تک اس کا اثر ہوا ہے کہ انبیاء کی تعلیم کی بھی وہ قدر نہیں کی جاتی جس قدر کسی بزرگ کی تعلیم کی قدر ہوتی ہے ۔ حکایت : میرے استاد مولانا فتح محمد صاحب کے پاس ایک شخص آیا اور اپنی عسرت اور قرض کو بیان کیا اور کہا کہ کوئی دعا بتلا دیجئے کہ قرض ادا ہو جائے ۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ پڑھا کرو ۔ اللھم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغننی بفضلک عمن سواک ( اے اللہ مجھے آپ کافی ہو جایئے اپنے حلال کے ساتھ حرام سے اور اپنے فضل کے ساتھ اپنے ما سوا سے ) اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ حدیث (3) میں وارد ہوئی ہے ۔ حدیث کا نام سن کر اس شخص کی یہ کیفیت ہوئی کہ جیسے سرد پڑ گیا ہو اور کہنے لگا کہ حدیث میں تو بہت سی دعائیں ہیں آپ اپنے پاس کوئی چیز بتلایئے جو کہ سینہ بسینہ چلی آتی ہو ۔ یہ فاسقانہ کلمہ سن کر مولانا کو بہت ہی غصہ آیا اور آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم پر دوسروں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) دعا مانگنے والے دو ہیں ۔ (2) وجہ اگلے مضمون نمبر 124 میں ہے (3) ترمذی بیہقی