ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کھاتے تھے - اگر فرض کیجئے کہ مال حرام ہی کھاتے تھے تو طبیعت کو یہ نفرت نہیں / 1 ہوسکتی یا یہ کہ ہمیشہ قے ہی کیا کرتے ہوں گے تو کھانا فضول ہے - غرض دنیا میں حلال بھی ہے حرام بھی ہے جو مسائل دریافت کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے مگر لوگ پوچھتے ہی نہیں - منشا اس غلط خیال کا کہ حلال رزق نہیں ملتا اور یہ فساد پیدا کا ہے سے ہوا کہ لوگوں نے پوچھنا چھوڑ دیا جو جی میں آیا کرتے رہے حتیٰ کہ اس کے عادی ہوگئے - اب جو کسی نے منع کیا تو اس کا چھوڑنا نہایت دشوار معلوم ہوا بس کہہ دیا کہ میاں یہ لوگ تو خواہ مخواہ بھی حلال کو حرام ہی کہا کرتے ہیں ان کی تو غرض یہی ہے کہ مال نہ بڑھے اور مسلمانوں کو ترقی نہ ہو - بس ہوتے ہوتے یہ ذہن میں جم گیا کہ ان کے یہاں تو سب چیز حرام ہی ہے - حلال کا وجود ہی نہیں جو حلال تھا وہ بھی حرام ہی سمجھنے لگے اور خوف سے مفتی کے پاس جانا چھوڑ دیا کہ دیکھا چاہئے کہ ہمارے کس معاملہ کو حرام بتادیں یا حلال بتائیں تو ہماری خاطر سے ہی شاید کہہ دیں اور فی نفسہ حرام ہی ہوگا کیونکہ حلال کا تو وجود ہی نہیں - سو یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ جس کو مفتی مباح / 2 کہے وہ عند اللہ مباح ہے اس میں کچھ حرج نہیں - شیطان کے بہت جال ہیں ان میں سے ایک یہ بھی کہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ سب حرام ہے پھر بعض لوگ حرام وحلال میں خواہ مخواہ شبہ کر کے حلال کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ جب اس میں وسوسہ ہے تو چھوڑ ہی دو چاہے مفتی کتنا ہی کہے کہ یہ حلال ہے مگر وہ اس کے چھوڑنے ہی کو اولیٰ سمجھتے ہیں - نہیں اس فعل میں کچھ حرج نہیں جو مباح ہے - اہل علم سے پوچھ لو کہ کوئی وجہ اس میں اباحت کی بھی ہے وہ کوئی ظالم نہیں کہ خواہ مخواہ یہی چاہتے ہوں کہ تم کو وقت میں ڈالیں اور یہ خیال مر کرو کہ حلال موجود ہی نہیں پوچھ لو پھر جس سے وم منع کریں اس پر عمل کرنے کے لئے ہمت باندھو - نفس کی کم ہمتی کا عمدہ علاج اور اگر نفس کم ہمتی ہی کرے تو اس سے یوں کہو کہ یہ جو حکام وقت کے احکام ہیں انکو کس طرح ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 قے ہو ہو جائے کیونکہ پھر تو وہ اس کے عادی ہوں گے - / 2 جائز بتائیں تو چونکہ وہ لوگ اسی چیز کو جائز بتاتے ہیں جو شریعت میں جائز ہو تو وہ اللہ کے نزدیک جائز ہی ہے -