ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کے ساتھ ہر چیز کو حاصل ہے چنانچہ ارشاد ہے ۔ و نحن اقرب الیھ منکم ولکن لا تبصرون ( اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے ) اور ارشاد ہے ۔ ونحن اقرب الیھ من حبل الورید ( اور ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں ) اور ایک قرب رضاء کا اور وہ بعض کو حاصل ہے اور اس آیت میں قرب رضاء مراد ہے قرب علم مراد نہیں کیونکہ وہ مومن و صالح کے ساتھ خاص نہیں اور یہ قرب رضاء بڑی دولت ہے مگر اس کو اہل دنیا تو کیا مقصود سمجھتے بہت سے اہل دین بھی پورے طور سے مقصود نہیں سمجھتے ۔ طریق تحصیل قرب حق پس اس آیت میں حق تعالی نے اس کا طریق بیان فرمایا ہے ۔ ارشاد ہے وما (1) اموالکم الآیۃ (2) یعنی مال اور اولاد جس کی تحصیل کے پیچھے لوگ پڑے ہیں یہ ذریعہ قرب نہیں ہو سکتے بلکہ ایمان اور عمل صالح اس کے ذرائع ہیں اور ظاہر ہے کہ ایمان اور عمل صالح میں وہی درجہ مطلوب ہو گا جو کامل ہو کیونکہ ناقص پورا پسندیدہ نہ ہو گا اور وہ ذریعہ رضاء کا کیسے بن سکتا ہے ۔ ایمان و عمل صالح کا درجہ کمال (3) علم و عمل دائم و حال پر موقوف ہے اور اس کا کامل ہونا موقوف ہے تین چیزوں پر علم و عمل دائم و حال اور دین کے یہی تین شعبے ہیں ۔ سو اگر علم نہیں تو احکام کی اطلاع ہی نہ ہو گی اور اگر عمل نہیں تو اس اطلاع کا نفع کیا ہو گا اور اگر عمل ہے تو اگرچہ بظاہر عمل ہونا کافی معلوم ہوتا ہے لیکن غور کرنے کے بعد یہ حالت بھی کچھ مفید نہیں کیونکہ اس میں خلوص اور بقاء (4) کی امید نہیں اور حال سے مراد ملکہ (5) ہے اس کی ایسی مثال سمجھو کہ اگر کسی سے محبت ہو جاوے اور اسکو کھلاؤ پلاؤ تو ایک تو یہ حالت ہے دوسرے یہ کہ اس کی محبت میں بے چینی ہونے لگے پہلی حالت عمل ہے اور دوسری حالت ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اور نہیں ہیں تمہارے مال اور اولاد میں کہ تم کو ہم سے خوب قریب کر دیں سوائے اس کے جو ایمان لے آیا اور اس نے نیک عمل کئے تو یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے واسطے دوگنا ثواب ہے ۔ ان عملوں کے سبب جو انہوں نے کئے ہیں اور وہ جنت کے بالاخانوں میں امن والے ہوں گے ۔ (2) آیت کے آخر تک (3) یعنی پورا پورا ہونا بغیر ہمیشگی کے عمل کے اور دل کی خاص کیفیت و حالت کے نہیں ہوتا ۔ (4) صرف خدا تعالی کے لئے بغیر ریا وغیرہ کے ہونے کی اور پائیداری و ہمیشگی کی (5) وہ کیفیت جو دل میں گڑی ہوئی ہو جو ہمیشہ رہنے والی ہو ۔