ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
الفاظ ظاہری کا ہے یعنی ہر ہر حرف کو علیحدہ علیحدہ صاف صاف اور اپنے مخرج سے ادا کرنا اور ایک مرتبہ معنی کا یعنی مدلول الفاظ کو سمجھ لینا یہ نہیں کہ خیال کہیں ہے صرف طوطے کی طرح سے لفظ ادا کردیئے یہ مرتبہ حق باطنی کا ہے اور ایک مرتبہ اس سے بھی ابطن ہے وہ اس کے احکام پر عمل کرنا ہے - جب یہ تینوں باتیں جمع ہوں گی تب کہا جائے گا کہ حق تلاوت کا ادا ہوگیا - غرض کل تین حق ہوئے - ایک حق ظاہری یعنی تلاوت دوسرا حق باطنی یعنی معنے سمجھ لینا تیسرا عمل کرنا یہ بمقابلہ دوسرے کے بھی باطن ہے تو اس کو ابطن کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ فیما بینہ / 1 و بین اللہ ہے اور ان تینوں میں وجودا سب سے مقدم حق ظاہری ہے اور مؤکد سب سے زیادہ تیسرا درجہ ہے - یعنی عمل ان دونوں میں حقیقت اور صورت کا فرق ہے - اصل چیز حقیقت ہی ہوتی ہے لیکن وجود اس کا لباس صورت میں ہوتا ہے - اسی وجہ سے صورت مقدم ہوتی ہے اور ضروری دونوں ہیں - پس حقیقت بلا صورت کے باطل ہے اور صورت بلا حقیقت کے عاطل/4 غرض ثابت ہوا کہ عمل بھی ایک حق ضروری ہے یہ نہیں کہ محخ مرتبہ مستحب ہی میں ہے - دیکھئے اللہ میاں نے آگے فرمادیا - اولٰیک یؤمنون بہ جو لوگ تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں وہی ایمان رکھتے ہیں یعنی کامل ایمان انہیں کا ہے - پس عمل موقوف علیہ ہے کمال ایمان کا اور کمال یمان کی تحصیل واجب ہے - تو ضرور عمل بھی واجب ہوگا - اللہ تعالیٰ کی صفت کبریا / 5 کے لحاظ رکھنے سے کل مفاسد کی اصلاح ہوجاتی ہے ولہ الکبریاء فی السموٰات والارج وھو العزیز الحکیم ( اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے بڑائی سب آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی غلبہ والے اور حکمت والے ہیں ) بس آیت میں ھق سبحانہ و تعالیٰ نے خاص اپنی ایک صفت بیان فرمائی ہے اگر اس کو انسان نظر میں رکھے تو کل مفاسد اس سے الگ ہیں - خلاصہ اس کا معرفت تعلق انسانی ہے - اللہ تعالیٰ کے ساتھ ظاہر ہے کہ تعلق امر نسبتی / 6 ہے جو طرفین کو چاہتا ہے - ایک طرف حق تعالیٰ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان / 2 موجود ہونے کے اعتبار سے / 3 تاکیدی / 4 بے کار / 5 عظمت اور بڑائی کی صفت / 6 دو چیزوں کا درمیانی تعلق