ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
خاک و باد و آب و اتش بندہ اندہ بامن و تو مردہ باحق زندہ اند ( مٹی ہوا پانی آگ سب انہی کے بندے ہیں میرے تمہارے سامنے مردہ مگر حق تعالیٰ کے سامنے زندہ ہیں ) پس آگ بے شک فاعل ہے مگر کب تک جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو معطل نہ فرماویں اور جب معطل فرماویں کسی کام کی نہیں جیسے تحصیلدار حاکم ہے جب تک معطل نہ ہو جب معطل ہوگیا تو جیسے اور ہیں ویسا ہی وہ بھی ہے - حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا اس لئے کہ اس کو حکم ہوگیا - یا نار کوئی بردا وسلاما علی ابراھیم ( اے آگ تو ٹھنڈ اور سلامتی بن جا ابراہیم علیہ السلام پر ) پس گو یہ ظاہرا خلاف درایت ہے لیکن خود یہ حکم درایۃ کا کہ النار محرقۃ حق تعالیٰ ( آگ جلانے والی ہے ) پر تو حجت نہیں - ہم لوگوں کی درایۃ نا تمام ہے اس واسطے ہم کو بعض احکام خلاف درایۃ معلوم ہوتے ہیں دوسرے آپ کی درایت بھی تو نا تمام ہے چنانچہ آپ کی درایت تو صرف اس قدر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کو آپ نے خلاف درایۃ سمجھ لیا حالانکہ واقع میں یہ درایت کے بھی خلاف نہیں ہے - اس لئے کہ سرقہ کی حقیقت یہ ہے اخذ مال الغیر خفیۃ اس کی تحقیق کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہے اول لینا دوسرے مال کا لینا تیسرے غیر کا مال چوتھے خفیہ لینا آنکھ سے صرف اس قدر دیکھا جاتا ہے کہ خفیہ مال لینا مگر مال الغیر ہونا - یہ آنکھ سے کیسے معلوم ہوا ممکن ہے کہ وہ شے اسی کی ہو یا اس نے اجازت سے لی ہوتو حضرت عیسیٰ نے اول اس ہیئت کو دیکھ کر فرمایا کہ چوری کی ہے پھر اس کی قسم کے بعد دوسرا عقلی احتمال متحضر ہوگیا کہ شاید یہ سرقہ نہ ہو اور یہ سمجھا ہو کہ س ہیئت میں کوئی عارضی مصلحت ہوگی - آپ نے دیکھا کہ آپ کی عقل اس قدر ہے اسی طرح جن جن چیزوں کو آپ خلاف عقل کہتے ہیں میں ان شاء اللہ تعالیٰ ایک ایک کو عقل پر منطبق کرسکتا ہوں -