ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
جس میں جو کمال ہے وہ کمال حق ہی کا ظل ہے علی ہذا جس چیز کا بھی جو کمال ہے وہ واقع میں کمال خداوندی کا ظل ہے خود اس کا ذاتی نہیں دیکھئے ۔ ہر چیز ہر کمال کے ساتھ اگر ایک وقت متصف ہے تو دوسرے (1) وقت اس سے خالی بھی ہے تو اس خلو (2) کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک وہ کمال خدا تعالی کی جانب سے عطا نہیں ہوا ۔ اسی طرح جب اس کے ساتھ اتصاف ہوتا ہے تو اس کی یہ وجہ ہے کہ ادھر سے فیضان ہو گیا اسی لئے بزرگ لکھتے ہیں ۔ حسن خویش ازروئے خوباں آشکارا کردہ پس بچشم عاشقاں خود را تماشا کردہ ( اپنے ہی حسن کو آپ نے خوبصورتوں کے چہرے سے ظاہر کر دیا ہے لہذا آپ نے عاشقوں کی نظر میں ہر جگہ سے اپنے کو ہی جلوہ دیا ہے ) اس کے یہ معنی نہیں کہ خدا کو حسینوں کے ساتھ اتحاد ذاتی ہے یا اس نے ان میں حلول کیا ہے کیونکہ یہ عقیدہ تو ایمان کے بالکل خلاف ہے اور کفر ہے اور کوئی عامی بھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا ۔ اگر ذرا سمجھ سے کام لے چہ جائیکہ کسی صاحب دل (3) کے کلام کے یہ معنی ہوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ذات مجتمع الصفات (4) کے مظہر ہیں اور اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل کی اس موقع پر ضرورت نہیں یہ فن کا مستقل مسئلہ ہے غرض جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ عشق کمال سے ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہو گئی کہ عشق کمال سے ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہر کمال واقع میں کمال خداوندی ہے اگرچہ وہ دوسرے کے اندر نظر آئے تو یہ بات بلا شک ثابت ہو گئی کہ ہر عاشق خدا کا عاشق ہے ۔ محب کے ذمہ محبوب کے جو حقوق ہوتے ہیں ہم کو حق تعالی سے اسی طرح کا تعلق رکھنا چاہیے اور اس کی نوعیت اس کے معلوم کر لینے کے بعد اب یہ دیکھئے کہ عاشق کو معشوق سے کس قسم کا تعلق ہوتا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اگر اس کی ذات ہی کی وجہ سے ہوتا تو جب تک ذات رہتی برابر رہتا ۔ (2) خالی ہونا (3) جس کے دل میں اللہ کے ساتھ کی نسبت قائم ہو (4) تمام صفتوں کو جمع رکھنے والی ذات کی صفتوں کے ظاہر ہونے کی جگہ ہیں ۔