ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اب اس کو سکون ہے ۔ اس کے بعد حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کھانا کھایا اور پھر ان کو بیوی کے پاس جانے کی رغبت اور بی بی کا حال یہ کہ ظاہر میں تو جو کچھ میاں کہتے تھے ان کی رضا مندی کے واسطے سب کچھ کر رہی تھیں مگر اندر جو کچھ تھا وہ حق تعالی کو معلوم تھا ۔ غرض میاں تو فارغ ہو کر سو رہے اور بی بی کو کیا نید آئی ہو گی ۔ صبح کے وقت جب حضرت ابو طلحہ نماز پڑھ کرتشریف لائے تو بی بی نے پوچھا کہ بھلا ایک بات تو بتلاؤ اگر کوئی شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھ دے تو جب وہ اپنی امانت مانگے تو ہنسی خوشی دینا چاہیے یا ناک منہ چڑھانا چاہیے ۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں ہنسی خوشی دینا چاہیےکہا تو اللہ تعالی نے اپنی امانت لے لی ۔ اب تم صبر کرو میاں ناراض بھی ہوئے کہ رات تم نے خبر نہ کی فرمایا کہ کیا نفع تھا تم پریشان ہوتے مجھے اس پر یہ قصہ یاد آیا تھا کہ انہوں نے موت کا نام سکون رکھا ۔ رجوع بجانب سرخی ( معصیت کا مرض جسمانی سے اشد ہونا الخ ) حاصل یہ کہ امراض بدنیہ کا انتہائی انجام موت ہے اور چونکہ قاطع تمام مصائب کی ہےاس لئے کچھ مضرنہیں مگر پھر بھی امراض بدنیہ کا اس قدر اہتمام ہوتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔ بخلاف مرض روحانی کے جس کی حقیقت ہے حدود شرعیہ سے تجاوز کرنا اور اعتدال سے خارج ہو جانا کہ اس کا انجام وہ ہلاکت ہے جس کی نسبت فرمایا ۔ لا یموت فیھا و لا یحی ( نہ اس میں مرے گا نہ زندہ رہے گا ) جس کا نام جہنم ہے اگر موت آ جاتی تو سب قصے ختم ہو جاتے مگر وہاں موت بھی نہیں پس جس مرض کا انجام صرف ہلاکت بدن ہے اس کو جب قابل اہتمام سمجھتے ہیں تو جس مرض کا نتیجہ ہلاکت ابدی یا 2؎ مدید و شدید ہے کیا وہ قابل اہتمام نہیں کیا اس کو مرض نہ کہا جاوے گا مگر حالت یہ ہے کہ زکام ہو جاوے تو حکیم جی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور صد ہا روحانی امراض میں مبتلا ہیں اور کچھ پرواہ نہیں ۔ فکر کون سی معصیت کی زیادہ ہونی چاہیے اور یوں تو ہر معصیت قابل اہتمام و فکر ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ وہ معصیت زیادہ قابل فکر ہےجس کو خفیف سمجھا جائے کسی نے بقراط سے پوچھا تھا کہ امراض میں کون سا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ دنیا کی تکلیفوں اور جھگڑوں سے اور عمل نیک اور توبہ صحیح کے بعد تو بالکل ہی سکون در سکون ۔ 2؎ دراز اور سخت