ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کرتے ہوئے دیکھا اس سے فرمایا کہ تو چوری کرتا ہے - اس نے کہا کلا واللہ الذی لا الٰہ الاھو یعنی ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے س کے عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا صدقت ربی وکذبت عینی یعنی میں اپنے رب /1 کی تصدیق اور اپنی آنکھ کی تکذیب کرتا ہوں یعنی میری آنکھ نے غلط دیکھا تو سچا ہے - انبیاء علہیم السلام کو نہ دین میں غلو ہوتا ہے اور نہ وہ مغلوب الحال ہوتے ہیں شاید کوئی خشک مغز اس کو غلو فی الدین /2 سمجھے یا کوئی یوں کہے کہ یہ تو استغراق یا غلبہ حال ہے - سو یا د رکھو کہ انبیاء علہیم السلام میں نہ غلو فی الدین ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے اور وہ مغلوب الحال بھی نہیں ہوتے بلکہ اپنے حال پر غالب ہوتے ہیں /4 بزرگوں کی دو قسمیں ہیں ابو الحال اور ابن الحال - ابو الحال وہ ہیں جو اپنے حال پر غالب ہوتے ہیں - مخلوق سے ملے جلے رہتے ہیں - اسباب ظاہرہ کو چھوڑتے نہیں ہر امر کو ضابطہ اور قاعدے سے کرتے ہیں - مال کو انتظام سے خرچ کرتے ہیں ان امور میں جیسے اور عوام کی حالت ہوتی ہے ایسی ہی ان کی بھی ہوتی ہے اور اہل حال آزد ہوتے ہیں - خلقت سے بھاگتے ہیں کسی امر کی تدبیر نہیں کرتے - موجی بندے ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں - ہاں خلاف شریعت کچھ نہیں کرتے - اس لئے کہ جو خلاف شریعت کرے گا وہ مقبول و بزرگ نہیں ہوسکتا - البتہ اس کا قول وفعل کبھی بظاہر خلاف شرع ہوتا ہے جس کی تاویل /5 ضروری ہے - ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 اپنے رب کو نام لینے کی /2 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جواب کو دین میں غلو اور زیادتی کرنا سمجھے - /3 توجہ الہیٰ میں غرق ہونا یا محبت کی حالت کا غالب ہونا ورنہ آنکھوں سے دیکھ لینا تو یقینی تھا - ور اس کی قسم کا سچا ہونا ضروری نہ تھ - /4 اس لئے یہ فرمانا قانون شریعت ہی کی وجہ سے ہے کیونکہ آنکھ سے توکسی چیز کا لینا ہی نظر آسکتا ہے س چیز کا اس کی ملک نہ ہونا یا اس کو لینے کی اجازت نہ ہونا یا اس کا کوئی حق س نہ ہوتا تو انکھ سے نظر نہیں آتا - قسم نے دوسری بات ہونے بتدیا ہے س لئے وہ سچ ہے - /5 اگر اس کے عام حالات شریعت کے مطابق ہوں تاکہ اس کا بزرگ ہونا ثابت رہے -