ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
بدلہ لے لے ۔ جبلہ نے جب یہ سنا تو طیش میں آ کر کہا کہ امیر المومنین مجھ کو اور ایک معمولی بازاری غریب آدمی کو کس چیز نے برابر کر دیا ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اسلام نے اور اس میں امیر غریب سب برابر ہیں تم نے اس کا دانت توڑ دیا تمہارا دانت ضرور توڑا جاوے گا ۔ اسلام کی رو سے امراء غرباء سب برابر ہیں اور اس کا بیان کہ اہل اللہ کا برتاؤ اس زمانہ میں بھی اس کے موافق ہے دیکھئے یہ ہے اخوت اسلامی ایک آج وقت ہے کہ امراء و رؤسا کا عالم ہی اس عالم ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ بہت عزت کے ساتھ ہمارے پاس ہے چنانچہ وہ اس کے پاس گئے تو وہ بڑی شان کے ساتھ موتیوں سے جڑا ہوا تاج پہنے ہوئے ریشمی لباس اور سونا چاندی کے ساز و سامان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ارد گرد بہت سے غلام اور باندیاں خدمت کو موجود تھیں کیونکہ نصاری کو جبلہ کے مرتد ہونے کی بہت خوشی تھی اس لئے کہ وہ اسلام سے پہلے نصرانی تھا اور صاحب سلطنت تھا اس لئے اس کو بہت عزت سے رکھا جب وہ صحابی اس کے پاس تو آپ نے اس طرح سلام کیا سلام علی من اتبع الھدی کہ جو ہدایت کی پیروی کرے اس کو سلام پہنچے ۔ جبلہ نے کہا کہ تم نے السلام علیکم مجھے کیوں نہیں کیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اس طرح سلام کرنا مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے اور میں نے تم کو اسلام کے خلاف دیکھتا ہوں خدا کرے تم دل سے مسلمان ہی ہو مگر جبلہ نے بات کو ٹال دیا پھر اس نے چاندی یا سونے کی کرسی ان صحابی کے بیٹھنے کے لئے پیش کی انہوں نے کہا کہ ہمارے نبی نے ہم کو اس سے منع فرمایا ہے ۔ تو جبلہ نے حضور ﷺ کا نام سن کر آہستہ سے روحی فداہ ﷺ کہا ان صحابی نے کہا کہ جبلہ میں تیرے اندر اسلام کی محبت پاتا ہوں پھر تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا اس نے کہا کہ کیا اب بھی میرا اسلام دوبارہ قبول ہوسکتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں اسلام میں تنگی نہیں توبہ کر لو پھر اسلام قبول ہو جائے گا ۔ اس کہا اس شرط سے مسلمان ہوں کہ مجھ سے قصاص نہ لیا جائے دوسرے حضرت عمر اپنی بیٹی سے میرا نکاح کر دیں اور اپنے بعد میرے واسطے خلافت کی وصیت کردیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ شرطیں میں نہیں کہ سکتا کہ منظور ہوں یا نہیں ، پھر حضور ﷺ کی مدح اور محبت کی باتیں کرتا رہا پھر اور باتیں ہوئیں اخیر میں وہ رونے لگا اور کہا اے کاش میں اس وقت قصاص دینا منظور کر لیتا اور اس دے انکار نہ کرتا کہ یہ حالت عیش و عشرت کی اگرچہ مجھے اب بہت کچھ نصیب ہو گئی مگر اس سے وہ فقر کی حالت ہی بہتر تھی ان صحابی نے یہ باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آکر بیان کیں آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کی شرائط منظور کیوں نہ کر لیں قصاص والے کو ہم دیت قبول کرنے پر راضی کر دیتے اور عمر کی بیٹی کیا بڑی چیز تھی اس سے اس کا نکاح بھی ہو جاتا رہا خلافت کا مسئلہ تو اس وقت ہم منظور اس کو منظور کر لیتے پھر مسلمان جس کو چاہتے خلیفہ بناتے اس کے بعد پھر جبلہ کے انتقال کی خبر پہنچی اور بظاہر اس نے اس حالت کفر پر جان دی باقی دل کا حال خدا کو معلوم ہے ۔ ہکذا ذکرہ من تاریخ الطبری ۔ یہاں یہ اشکال ہوگا کہ حضرت عمر نے ایک ذرا سی بات میں اس پر اتنی سختی