ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
مسلمان کو جس شے سے بھی محبت ہوتی ہے وہ حب حق ہی کا ظل (1) ہے اور اگر کسی کو اب بھی شک رہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر براہ راست خدا سے محبت معلوم نہیں ہوتی تو اس شخص کو کسی سے تو محبت ہو گی ۔ کم از کم اپنی جان سے تو ہی محبت ہو گی ایک مقدمہ تو یہ ہوا اور دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ محبت کسی نہ کسی کمال کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے علم و فضل و حسن صورت ، حسن سیرت اور تیسرا مقدمہ یہ ہے اور مسلم ہے کہ ہر کمال (2) ظل کمال خداوندی ہے تو ہر شخص اگرچہ وہ کسی کا عاشق ہو واقع میں کمال خداوندی کا عاشق ہے اور یہی معنی ہیں محبت خدا کے اور اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص نے دیوار پر دھوپ دیکھی اور اس کی وجہ سے وہ دیوار کا عاشق ہو گیا اس صورت میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ شخص واقع میں دیوار کا عاشق نہیں آفتاب کا عاشق ہے کیونکہ دیوار کا عشق ایک کمال کی وجہ سے پیدا ہوا تھا یعنی نور اور وہ کمال واقع میں آفتاب کا کمال ہے نہ کہ دیوار کا یہی وجہ ہے کہ جب آفتاب چھپ جاتا ہے اور اس سے وہ نور زائل ہو جائے تو عشق بھی زائل ہو جاتا ہے ۔ اسی کو کہا ہے عشق بامردہ نہ باشد پائیدار عشق رابا حی و باقیوم دار ( مر جانے والے کے ساتھ عشق کرنا پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عشق تو اس ذات سے رکھو جو ہمیشہ زندہ اور سب نظام والی ہے ) عشق ہائے کزپئے رنگے بود عشق نبود عاقبت ننگے بود ( یہ جو عشق رنگ روپ کی وجہ سے ہوتے ہیں حقیقت میں عشق ہی نہیں انجام کار شرم و عار ہوتے ہیں ) عاشقی بامردگاں پائندہ نیست زانکہ مردہ سوے ما آئندہ نیست ( مر جانے والوں کے ساتھ عشق کرنا دیر تک رہنے والا ہی نہیں کیونکہ مردہ پھر ہمارے پاس آنے والا نہیں ) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) سایہ یا پرتو (2) یعنی اصل کمالات تو صرف حق تعالی کے ہی ہیں ۔ انہی کا پرتو کچھ کچھ کسی کسی کو عطا ہوا ہے تو اس پر توپر عشق اصل پر ہی عشق ہے گو اصل کی خبر نہ ہو یا اس کی طرف توجہ نہ ہو اور اسی کو اصل سمجھ کر دھوکہ میں مبتلا ہو