ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
گل جاوے گا - کیڑے اس کو کھالیں گے - یہ خیال تو فوری علاج ہے اور آئندہ کے لئے تقاضہ پیدا ہونے کا علاج یہ ہے کہ ذکر اللہ کی کثرت کرو اور دوسرے یہ کہ عذاب الہیٰ کا تصور کرو - تیسرے یہ کہ تصور کرو کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کو مجھ پر پوری قدرت ہے - طول مراقبات اور کثرت مجاہدات سے یہ چور دل میں سے نلکے گا - جلدی نہ جاوے گا جلدی نہ کرے اس لئے کہ ایسا پرانا مرض ایک دن ایا ایک ہفتہ میں نہیں جاتا - یہاں مجھ کو شاہ محمود غزنوی کی حکایت یاد آگئی - حکایت : محمود نے جب ہندوستن پر حملہ کیا تو ایک ہمراہی سپاہی نے ایک مندر میں جاکر دیکھا کہ ایک بوڑھا برہمن پوجا پاٹ کرہا ہے - سپاہی نے تلوار دکھائی کہ کلمہ پڑھ اور مسلمان ہو ورنہ اس تلوار سے دو ٹکڑے کردوں گا - برہمن نے کہا حضور ذرا ٹھہریئے - سپاہی نے پھر تقاضا کیا برہمن نے عرض کی حضور نوے برس کا رام تو دل میں سے نکلتے نکلتے ہی نلکے گا - ذرا سی دیر میں کیسے نکل جاوے خوب کہا ہے ؎ صوفی نشود صافی تادر نہ کشد جامے بسیار سفر بید تا پختہ شود خامے ہمت مر ہارو مجاہدہ کرتے رہو رفتہ رفتہ یہ تقاضا ضعیف ہوجاوے گا اور قابو میں آ جاوے گا کہ اپنے محل پر صرف ہوگا اور غیر محل کے لئے متحرک نہ ہوگا - اور یہی مطلوب ہے - افعال قبیحہ کے مادہ کا ازالہ مقصود نہیں اور اس کے متعلق نادان اہل سکول کی ایک بڑی غلطی تیسرا درجہ یہ کہ مادہ ہی منقطع ہوجاوے - یعنی بالکل میلان ہی کبھی پیدا نہ ہو - یہ وہ مرتبہ ہے کہ جس کو نادان سالک مطلوب سمجھتے ہیں - اور اس کے حاصل نہ ہونے پر پریشان ہوجاتے ہیں - یعنی جب اپنے اندر کسی وقت میلا پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہمارا سب ذکر و شغل ومجاہدہ بیکار گیا - حتیٰ کہ یسے کلمات پریچانی میں ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں کہ بے ادبی ااور گستاخی ہوجاتی ہے - مثلا ہم اتنے روز سے طلب حق میں رہے مگر ہم پر رحم نہیں آتا کہ ویسے ہی محروم ہیں - ید رکھو کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے - یہ ہرگز مطلوب نہیں کہ مادہ منقطع ہو