ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
متناہی (1) ہیں اور متناہیین (2) کا تقارب ظاہر ہی ہے ۔ برخلاف بندے کے علم اور خدا کے علم کے کہ دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کے علم کے بھی خدا کے علم سے کوئی تناسب (3) نہیں ہے کیونکہ مجموعہ کائنات کا علم کیسا کچھ بھی ہو پھر بھی متناہی (4) تو ضرور ہو گا ۔ برخلاف علم خداوندی کے کہ وہ غیر متناہی (5) ہے ۔ خوب کہا ہے اگر آفتاب ست یک ذرہ ایست وگر ہفت دریاست یک قطرہ ایست ( اگر آفتاب بھی ہے تو ان کے آگے ایک ذرہ کے برابر اور اگر ساتوں سمندر کا مجموعہ ہے تو ایک قطرہ کے برابر ) چوسلطان عزت علم برکشد جہاں سربجیب عدم درکشد ( جب عزت کا بادشاہ جھنڈا بلند کرتا ہے تو سارا جہان عدم کے گریبان میں سر ڈال لیتا ہے یعنی سارا جہان بھی ان کے آگے مثل نہ ہونے کے ہو جاتا ہے ) وحدۃ (6) الوجود کے معنی اور اس میں عوام کی غلطی اور اس کی اصلاح اور یہی (7) وہ کیفیت ہے جس کو اہل فن نے وحدۃ الوجود کہا ہے جو معنی عوام میں مشہور ہیں ۔ کہ میں خدا اور تو بھی خدا اور درو دیوار بھی خدا ۔ یہ معنی بالکل غلط ہیں اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی بالکل ہی موجود نہیں یہ بھی بالکل غلط ہے ۔ اور قرآن حدیث کے بالکل خلاف ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے اللہ خالق کل شیء وھو علی کلی شیء وکیل ( الایۃ ) ( اللہ تعالی ہی ہر موجود چیز کو پیدا کرنے والے ہیں وہی ہر ہر موجودہ کے ذمہ دار ہیں ) حقیقت میں یہ مسئلہ حالی (8) ہے ۔ قالی نہیں وہ حال یہ ہے کہ جب خدا تعالی کی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) محدود (2) دو محدودوں کا کچھ نہ کچھ قریب قریب ہونا ۔ (3) مناسبت اور قریب ہونا نہیں ساری مخلوق کا سارا علم بھی محدود ہی ہے ۔ ان کا نامحدد (4) محدود (5) نامحدود یعنی بے حدود بے انتہا اس لئے قطرہ و سمندر کی نسبت نہیں ہو سکتی ۔ (6) وجود کا ہونا یعنی یہ جو ہر ہر چیز کا وجود الگ الگ نظر آ رہا ہے حقیقت کی نظر میں وجود صرف ایک ہی ہے ۔ (7) کہ ان کے سامنے ہر چیز مثل نہ ہونے کے ہے ۔ (8) ایک حالت و کیفیت کی صورت ہے کہ جب صفات و ذات کا مشاہدہ ہوتا ہے کوئی اور نظر میں نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ سوائے ان کے کسی کا وجود نہیں یعنی اور سب مثل نہ ہونے کے ہیں یہ نہیں کہ ہیں ہی نہیں لہذا صرف مجاز ہے ۔ تحقیقی بات نہیں ۔