ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کیا اس کو وجد ہو سکتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی بے حد فرحت کا دن ہوتا ہے ایک دوسرے بزرگ انتقال کے وقت منتظرانہ و مشاقانہ فرماتے ہیں ؎ وقت آں آمد کہ من عریاں شوم جسم بگذارم سراسر جاں شوم ( وقت وہ آگیا کہ میں لباس سے خالی ہو جاؤں جسم کو چھوڑ کر بالکل روح ہی روح ہو جاؤں ) اور یہ حالت کیوں نہ ہو جبکہ وہ جانتے ہیں کہ اب پردہ 1؎ ہائے ہیولانی جو کہ مانع دیدار تھے ۔ اٹھتے ہیں اور کوئی گھڑی ہے کہ محبوب حقیقی کا دیدار نصیب ہو گا ۔ صرف یہ نہیں کہ ان کو جنت کی یا حوروں کی ہوس ہوتی ہے حضرت ابن الفارض ؒ کا واقعہ لکھا ہے کہ جب ان کا انتقال ہونے لگا تو جنت منکشف ہوئی آپ نے اس طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا ۔ ان کان منزلتی فی الحب عند کم ما قد رایت فقد ضیت ایامی ( اگر محبت میں میری عزت آپ کے نزدیک یہی ہے جو میں نے دیکھی ہے تو میں نے عمر ہی کھو دی ) کہ جان تو آپ کے لئے دے رہا ہوں جنت کو کیا کروں آخر جنت چھپ گئی اور فورا تجلی ظاہر ہوئی اور جاں بحق ہوئے ان کی بالکل وہی حالت ہو گئی ؎ گر یباید ملک الموت کہ جانم ببرد تانہ بینم رخ تو روح زمیدن ندہم ( اگر موت کا فرشتہ آوے کہ میری جان نکال لے جائے تو جب تک آپ کا چہرہ نہ نہ دیکھ لوں گا روح کو بھاگنے نہ دوں گا ) اکثر لوگ ان حالات کو سن کر تعجب کریں گے لیکن یہ تعجب صرف اس وجہ سے ہے کہ خود اس سے محروم ہیں مگر ایسے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ؎ تو مشو منکر کہ حق بس قادر ست ( تم انکار مت کرو کیونکہ اللہ تعالی تو بہت قدرت والے ہیں ) رجوع بجانب سرخی ( بزرگوں کے عرس کا طریقہ محض لغو ہے مع دلیل ) غرض بزرگوں کے قول اور حدیث وغیرہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان بزرگوں کی وفات کا دن 2؎ یوم العرس ہے لیکن لوگوں نے ان کے مفہوم و مصداق دونوں کو ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ مادہ و جسم کے پردے 2؎ شادی کا دن