ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
معنوی اس سے اغنا و مساکین ہے مگر بایں ہمہ اس کے لئے ایک خاص مقدار ایک خاص وقت معین ہے جس سے مقصودیت صورت ایک درجہ میں یہاں بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ صرف اغنا تو ان امور پر موقوف نہیں لیکن دعا میں نہ کسی وقت کی شرط نہ زبان عربی کی شرط نہ کسی خاص جہت کی شرط نہ کوئی مقدار معین نہ وضو وغیرہ کی قید اس میں صرف عاجزی نیاز مندی اپنی احتیاج کا اظہار اپنے مولیٰ کے آگے بس یہ کافی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہاں صورت پر بالکل نظر نہیں معنی ہی معنی مقصود ہیں بس اب یہ صرف زبانی دعا کہ آموختہ سارٹا ہوا پڑھ دیا نہ خشوع نہ خشیت نہ دل میں اپنی عاجزی کا تصور یہ خالی از معنی دعا کیا ہوئی - دعا میں حضور قلب کی ضرورت اور بغیر حضور قلب کے دعا کی مثال اس بے توجہی کی مثال توایسی ہوئی جیسا کوئی شخص کسی حاکم کے ہاں عرضی دینا چاہے اور اس طور پر عرضی پیش کرے کہ حاکم کی طرف پیٹھ کرے اور منہ اپنا کسی دوست یار کی طرف کر کے اس عرضی کو پڑھنا شروع کردے - دو جملے پڑھ لئے پھر دوست ہے ہنسی مذاق کرنے لگے پھر دو جملے پڑھ دیئے اور ادھر مشغول ہوگئے - اب سوچ لینا چاہیے کہ حاکم کی نظر میں ایسی عرضی کی کیا قدر ہوسکتی ہے - بلکہ الٹا یہ شخص قابل سزا ٹھہرایا جائے گا - بس یہی معاملہ ہے دعا کا - دعا میں جب تک کہ پورے طور پر قلب کو حاضری نہ کرے گا اور عاجزی اور فرونتی کے آثار اس پر نمایاں نہ ہوں گے وہ دعا دعا نہیں خیال کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قلب کی حالت کو دیکھتے ہیں ؎ مابروں رال ننگریم و قال را ماوروں را بنگریم و حال را نا ظر قلبیم گر خاشع بود گرچہ گفت لفظ نا خاضع بود حدیث شریف میں ہے ان اللہ لا ینظر الیٰ صورکم و لکن ینظر الیٰ قلوبکم غرض یہ بات پورے طور پر ثابت ہوگئی کہ دعا میں حضور اور خشوع ہی مقصود ہے اگر بے اس کے بھی کسی کی دعا قبول ہوجائے تو اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ خداوند تعالیٰ کا مجھ پر ابتدائی احسان ہے دعا کا اثر نہیں -