ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
الحاکمین کے کلام کی کیا کچھ عظمت ہونی چاہیئے - شاہان دنیا کا کلام دو چار برس کی تمنا اور کوششوں کے بعد میسر ہوتا ہو تو کلام الٰہی اگر کچھ بھی نہیں تو دو چار برس کی محبت کے بعد تو نصیب ہونا چاہیئے مگر نہیں - کس درجہ رحمت ہے اللہ میاں کی کہ ہمارے ہاتھوں میں اپنی کتاب دیدی اور اذن عام دے دیا کہ جس کا جس وقت جی چاہے ہم سے باتیں کرے پھر صرف اذن ہی نہیں بلکہ مطالبہ بھی ہے بندوں سے کہ باتیں کرو اب ہم بندے اپنی ذلت اور احکم الحاکمین کی عزت کو پیش نظر کر کے دیکھیں کہ یہ باتیں کرنے کی فرمائش کیا چیز ہے سوا اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ محض فضل ہے معلوم ہوگیا ہوگا کہ تلاوت کتاب اللہ کی حقیقت اللہ میاں سے باتیں کرنا ہے - اب اس آیت میں فرماتے ہیں کہ ہم سے باتیں تو کروگے مگر قاعدے اور ادب کے ساتھ کرنا یتلونہ حق تلاوتہ ( تلاوت کرتے ہیں اس کی جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ) ترکیبا تو اخبار/2 ہے مگر مقصدا انشا ہے یعنی تلاوت کرنے والوں کو چاہیے کہ تلاوت کے حقوق ادا کریں - تلاوت کے ظاہری و باطنی حقوق اور قرآن کی تعلیم کی جامعیت جب تلاوت کی حقیقت معلوم ہوگئی تو اب سمجھ لیجئے کہ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں باطنی اور ظاہری قربان جایئے تعلیم شریعت کے کہ اعمال میں صرف بناوٹ نہیں سکھلائی بلکہ ظاہری حقوق بھی بتائے اور باطنی بھی اور باطنی کو ظاہری زیادہ ضروری رکھا مثلا ماں باپ کے حق ظاہری کو فرمایا واخفض لھما جناح الذل کہ ان کے سامنے پستی اختیار کرو وضع میں قطع میں تکلم میں نشست و برخاست میں غرض ہر چیز میں ان سے تذلل /3 برتو - کسی بات میں ان پر ترفع مت کرو - یہ تو حق ظاہری اور حق باطانی کو سبحان اللہ کیسے ذرا سے لفظ سے ادا فرمادیا - یعنی من الرحمۃ یعنی ان کے سامنے نڑی ظاہری پستی پر اکتفانہ کرو اس کا کچھ اعتبار نہیں بلکہ اس ظاہری پستی کا منشا رحمت ہو - رحمت رقت قلب کو کہتے ہیں یعنی ان کی خدمت دل سے کرو جیسا ظاہر ان کے سامنے پست کیا ہے - باطن کو بھی پست کرو دل کے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 عام اور سب کو اجازت / 2 ترکیب میں تو جملہ خبریہ ہے مگر مقصود و معانی انشا اور حکم کے ہیں - / 3 اپنے کو پست کرنا / 4 بلندی حاصل کرنا