ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کھانے کمانے کی عقل کوئی عقل نہیں ہے ہم اور آپ عاقل نہیں ہاں آکل ہیں - یعنی ہم کو کھانے کی عقل ہے مثل بہائم کے چنانچہ بعض جانور اپنے کھانے پینے کی ایسی تدبیر کرتے ہیں کہ علقلاء بھی نہیں کرسکتے - رجواڑوں میں سنا ہے کہ ریت کے اندر تربوز چھپے رہتے ہیں بیلوں کو جب پیاس لگتی ہے تو ریت کو کرید کر تربوز نکال کر کھالیتے ہیں - اور آدمی کو تلاش سے بھی نہیں ملتے اس کھانے پینے کی تدبیروں کو لوگ ترقی کہتے ہیں ترقی یہ ہوئی کہ بیل کے برابر ہوگئے - حضرت یہ ترقی نہیں ہے ترقی یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے تم کو عقل دی ہے اس کو دین کے کاموں میں صرف کرو کھانے پینے کی عقل تو جانوروں کو بھی ہوتی ہے بلکہ تم سے زیادہ ہوتی ہے اس پر تو چاہیے کہ وہ زیادہ ترقی یافتہ ہوں آگر یہی ترقی ہے تو ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق ہوگا - رجوع بجانب سرخی ( سمع بصر قلب جوارح کی حفاظت کا حکم ) یہ قصہ عیسیٰ علیہ السلام کا انہوں نے کس قدر احتیاط فرمائی اور لا تقف مالیس لک بہ علم پر کیسا عمل کیا ہم لوگوں کی حلت یہ ہے کہ ذرا سے شبہ میں چور کہہ دیتے ہیں - محض قرائن سے کسی کو چور کہہ دینا نہایت برا ہے - کسی عمل سے چور کا نام معلوم کر کے اس پر چوری کا الزام لگانا جائز نہیں اس پر ایک اور مضمون یاد آگیا کہ بعض لوگ چور کے معلوم کرنے کے واسطے ایک عمل لوٹا گھمانے کا کیا کرتے ہیں - اس پر سورہ یا سین شریف پڑھتے ہیں - جس کے نام پر لوٹا گھوم جائے اس کو یقینا چور سمجھتے ہیں اور اس عمل میں غلطی کا احتمال ذرا نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کا عمل ہے - یاد رکھو یہ حرام ہے - شریعت میں بلا اپنے دیکھے یا دو عادل کی گواہی بغیر کسی کو چور سمجھنا ممنوع ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن کا عمل غلط نہیں ہوسکتا اس میں مغالطہ ہے یہ عمل اگر قرآن کا مدلول ہوتا تو واقعی یقینی ہوتا اور یہی معنی ہیں اس کے قرآن میں