ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
بتلادیا کہ اباجان کوا ہے بنئے نے پھر پوچھا کہ بھائی یہ دیوار پر کیا چیز بیٹھی ہے - صاحبزادہ نے کہا ابھی تو بتلا دیا تھا کہ کواہے تیسری بار اس نے پھر پوچھا تو صاحبزادہ نے بگڑ کر جواب دیا کہ تمہارا تو دماغ چل گیا ہے چپکے پڑے رہو - اس پر بنئے نے اپنا بھی کھاتہ منگایا اورکھول کر دکھلایا کہ صاحبزادہ دیکھو تم نے ایک سوبار مجھ سے اپنے بچپن میں یہی سوال کیا تھا اور میں نے ہر مرتبہ محبت سے جواب دیا تھا - تم دو ہی بار میں گھبراگئے - بوڑھے ماں باپ کی تنگ مزاجی سے تنگ ہونے کو جو منع کیا جاتا ہے اس پر شبہ اور اس کا جواب اور قرآن کے کلام الہیٰ ہونے کی ایک لطیف دلیل لیکن شاید کوئی شخص یہ کہے کہ صاحب بوڑھوں کی تنگ مزاجی سے ناگواری تو امر طبعی ہے اگر اس پر بھی باز پرس ہے تو سخت مشکل کی بات ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ امور طبیعہ پر خدا تعالیٰ نے کہیں باز پرس نہیں فرمائی - باز پرس امور اختیار یہ میں ہے - کلام مجید اس شبہ کا خود ازالہ فرمارہاہے - پارہ سبحان الذی میں حقوق والدین کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے - ربکم اعلم بمافی نفوسکم ان تکونوا صالحین فانہ کان للاوابین غفورا ( تمہارا رب خوب جانتا ہے ان چیزوں کو جو تمہارے دلوں میں ہیں اگر تم واقعی نیک ہوگے تو وہ خدا کی طرف رجوع کرنے والوں کے لئے بہت بخشنے والے ہیں ) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی ہر وقت کی تنگ مزاجی سے جو گھبراہٹ تمہارے دلوں میں پیدا ہوگئی ہے یہ تو امر طبعی ہے - اگر کوئی خشک کلمہ منہ سے نکل جاوے اس میں معذور ہو لیکن خدا تعالیٰ دل کی نیت کو جانتا ہے اگر دل میں ان کی اطاعت ہے اور غالب تم میں صلاحیت ہے تو ایسی بے اعتنائی سے معذرت کرنے کو بخش دیتا ہے صاحبو ظاہر نظر میں اس جگہ پر یہ آیت بالکل بے جوڑ معلوم ہوتی ہے لیکن تقریر بالا سے سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مضمون بالا سے کس قدر چسپاں ہے اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کی یہ بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ اس میں ہر ہر بات کے وہ مخفی پہلو لئے گئے ہیں کہ دوسرے کے کلام میں اس قدر