ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہے جن کو خوب فرصت و فراغ ہے ورنہ جو لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں ان کو کبھی ایسی لغویات کی نہیں سوجھتی ۔ افسوس ہے کہ خدا تعالی نے تو فراغت اس لئے دی تھی کہ دین کا کام کریں ۔ مگر زیادہ تر ایسے ہی لوگ محروم ہیں خوب کہا ہے ۔ خوشا (1) روزگارے کہ وارد کسے کہ بازار حرصش نہ باشد بسے بقدر ضرورت یسارے بود کندکارے ازمرد کارے بود کہ بڑا خوش نصیب وہ ہے کہ اس کو حرص نہ ہو اور ضرورت کے موافق کھانے کو ہو ۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم قدر نہیں کرتے اور اس بیکاری میں اپنے پیچھے یہ علتیں لگا لیتے ہیں ۔ اور افسوس یہ ہے کہ بعض سالکین یہ کہتے ہیں کہ ان امردوں (3) کے حسن میں خدا کا حسن جلوہ گر ہے ۔ حکایت : حضرت شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ بقراط نے کسی شخص کو ناچتے ہوئے دیکھا ۔ پوچھا اس کو کیا ہوا ۔ معلوم ہوا کہ کسی امرد حسین کو دیکھ لیا ۔ اس سے بے خود ہو گیا کہ اس میں جلوہ حق نظر آیا ۔ کہنے لگا کہ یہ کیا بات ہے کہ اس کو امرد میں تو جلوہ حق نظر آیا میرے اندر کبھی نظر نہ آیا ۔ یہ بقراط کا قول ہے اس کا اگر اعتبار نہ کرو تو خود شیخ کے قول کا تو اعتبار کرو گے ۔ وہ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ محقق (4) جاں مسیند اندر ابل ! کہ درخوبرو یاں چین و چگل ! نداوند (5) صاحب دلاں دل بپوست اگر ابلھے داد بے مغز اوست معالجہ عشق مجازی اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے کو کسی کام میں لگا دو جس میں کھپ جاؤ ۔ اگر دین کا کام نہ ہو تو دنیا ہی کا کوئی جائز کام کرو مگر کسی کام میں لگ جاؤ ۔ طبیبوں نے بھی اس کے متعلق لکھا ہے کہ یعرض للباطلین ( یہ مغز بیکار لوگوں کو پیش آتا ہے ) پس خوب سمجھ لو کہ امرد کو لذت ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) کتنا اچھا ہے یہ زمانہ اگر کوئی اس کو رکھتا ہو کہ اس کی حرص کا بازار بہت نہ ہو ۔ (2) ضرورت کے موافق فراغت ہو اور پھر کام کرے اگر کام کا مرد ہو ۔ (3) بے داڑھی کے لڑکے ۔ (4) محقق تو خدا تعالی کی قدرت اونٹ میں بھی وہی دیکھتا ہے جو چین و چنگل کے حسینوں میں دیکھتا ہے (5) اہل دل لوگوں نے ( جن کا دل خدا سے لگ چکا ہے ) کھال اور چھلکے کو دل نہیں دیا اگر کسی بے وقوف نے دیا ہے تو وہ خود بے مغز ہے ۔