ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
فکر خود و رائے خود رد عالم رندی نیست کفر است دریں مذہب خود بینی و خود رائی بعض لوگ ذکر وشغل کرتے ہیں اور کسی خاص حالت اور ثمرہ کے حاصل نہ ہونے پر جس کو غلط فمہی سے انہوں نے مقصود سمجھ رکھا ہے ۔ غمگین ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ یہ لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں اصل مقصود رضائے حق ہے جس کا طریق ذکر و طاعت ہے ۔ جس کو یہ حاصل ہے سب کچھ حاصل تو ان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کو ذکر اطاعت کی توفیق تو دی ہے بلا بودے اگر ایں ہم نبودے حقیقت میں طلب اور درد و غم بھی نعمت عظمی ہے جس کا شکر کرنا چاہیے ۔ گفت آں اللہ تو لبیک ماست دیں نیاز وسوز و دردت پیک ماست حضرت حاجی صاحب امداداللہ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک عجیب ارشاد حکایت : اگر حضرت حاجی صاحب قدس سرہ سے کوئی خادم اس امر کی شکایت کرتا تو فرماتے کہ خدا کا شکر کرو کہ اس نے اپنا نام لینے کی توفیق تو دی ہے اور اس موقعہ پر اکثر یہ شعر فرمایا کرتے یا بم اورا یا نیابم جستجوئے میکنم حاصل آٰید با نیاید آرزوئے میکنم اور فرمایا کرتے کہ جس طاعت کے بعد پھر اس طاعت کی توفیق ہو یہ طاعت سابقہ کے قبول کی علامت ہے تو قبول کتنی بڑی نعمت ہے ۔ عشاق کی نظر کسی قسم کے قبول پر نہیں ہوتی غرض قبول اسی میں منحصر نہیں کہ اس کی خواہش کے مواقع ہو اور عشاق کی نظر تو کسی قسم کے قبول پر ہی نہیں ہوتی ان کی حالت تو یہ ہے ۔ ازدعا نبود مراد عاشقاں جز سخن گفتن بآں شیریں زباں عاشقان خدا کو عشق میں مجنون سے تو کم نہ ہونا چاہیے کیا اس کے نام کی مشق کچھ کم دولت ہے جو اور چیزوں کی تمنا کی جاتی ہے ۔