ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
اس میں یہی ہے کہ انسان کے دماغ کی مثال پریس کی سی ہے کہ کاپی لکھ کر جب لگاؤ تو چھپ جائے گا اسی طرح جو چیز دماغ انسان کے روبرو ہوتی ہے وہ اس میں منقش ہو جاتی ہے اگرچہ اس وقت شعور نہیں ہوتا لیکن اس انتقاش (1) کے لئے شعور کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم پریس میں انگریزی چھاپ لیں اور پھر انگریزی سیکھ لیں تو چند روز کے بعد ضرور پڑھ لیں گے ۔ علی ہذا اگرچہ بچہ اس وقت نہیں سمجھ سکتا لیکن بڑا ہو کر سمجھے گا چنانچہ ایک عاقل عورت نے یہ کہا ہے کہ پانچ چھ برس (2) کے بعد بچہ قابل تربیت نہیں رہتا بلکہ ہر حالت پختہ ہو جاتی ہے وہ کہتی تھی کہ اگر پہلے بچے کو درست کر دے تو اس کے بعد سب بچے اسی سانچے میں ڈھل جائیں گے ۔ غرض معلوم ہوا ہو گا کہ صحبت کا کیا اثر ہے تو جناب باری تعالی کی بڑی رحمت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے یوں دعا کرائی کہ ان میں ایک پیغمبر بھیجئے اور پھر آپ کو مبعوث فرمایا کہ آپ نمونہ ہوں سو بعض نے آپ کو دیکھا اور بعض نے آپ کی سیرت دیکھ کر آپ کی حالت معلوم کی اور اسی طرح آپ ہمارے بھی پیش نظر ہیں اور اس اعتبار سے اگر فیکم (3) رسولھ کو عام لیا جائے تو درست ہو گا ۔ حضور مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیر (4) جزئیہ کا اتباع بہ نسبت قوانین کلیہ کے سہل تر ہے واقعی آپ کی سیر کو دیکھ کر جس قدر آسانی سے ہم اتباع کر سکتے ہیں قوانین کلیہ کو دیکھ کے نہیں کر سکتے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب آپ ہمارے لئے نمونہ ہیں تو ہم سے بھی باز پرس ہو گی کہ تم اس نمونہ کے موافق بن کر کیوں نہیں آئے اس کی ایسی مثال ہے کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) نقش ہونا جم جانا (2) اور سات برس کی عمر میں عقل بھی قائم ہو جاتی ہے اسی لئے سات سال کے بچہ کو نماز کا حکم کرنے کا ارشاد ہے اور اسی عمر کے بعد بچہ ماں کی پرورش کا محتاج نہیں رہتا باپ کو لینے کا شرعا حق ہے ۔ (3) تمہارے اندر ان کے رسول ہیں ۔ یہ صحابہ کے لئے خاص نہیں بلکہ ایسے عام ہے کہ اب ہمارے اندر بھی باعتبار سیرت کے ہیں ۔ (4) سیرت کی جمع ہے یعنی حضور کی ایک ایک روش اور طور طریق کی پیروی بہ نسبت کلی قاعدوں کے زیادہ آسان ہے