ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
حکایت : حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے کسی خادم نے اس بات کا افسوس ظاہر کیا کہ اب کی بیمار کی وجہ سے مدت تک حرم میں حاضر ہونا نصیب نہ ہوا ۔ آپ نے خواص سے فرمایا کہ اگر یہ شخص عارف ہوتا تو اس پر کبھی افسوس نہ کرتا ۔ کیونکہ مقصود قرب حق ہے اور اس کے لئے جس طرح نماز حرم ایک طریق ہے اسی طرح اس کے لئے مرض بھی ایک طریق ہے ۔ تو بندہ کا کیا منصب ہے کہ اپنے لئے خود ایک طریق معین کرے یہ مربی کے اختیار میں ہے طبیب کی تجویز مریض کی تجویز سے ہزار زیادہ بہتر ہے بدرود صاف ترا حکم نیست دم درکش کہ ہرچہ ساقی مار یخت عین الطاف است یہ سب بیان تھا قیام لیل اور اس کے آداب کا اقتضاد کے ساتھ اب دوسرا معمول اہل سلوک کا مذکور ہوتا ہے ۔ ورتل القرآن ترتیلا کے معنی ہیں تھام تھام کر پڑھنا ۔ صحابہ کے زمانے میں تلاوت اور تکثیر نوافل بھی حصول نسبت کے لئے کافی تھے بعد میں ذکر کے اندر قیودات خاصہ تغیر زمانہ کی وجہ سے علاجا ایجاد کی گئیں صحابہ کے زمانہ میں ایک یہ بھی طریق حصول نسبت کا تھا کہ قرآن اور نماز پر مداومت اور محافظت کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خواب میں دریافت کرنا کہ آج کل کے صوفیہ کے طریقوں میں سے کونسا طریقہ آپ کے موافق ہے اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کا یہ ارشاد کہ ہمارے زمانے میں تقریب کا ذریعہ ذکر کے ساتھ قرآن اور نماز بھی تھا اور اب صرف ذکر پر اکتفا کرلیا ہے مشہور ہے اور اس تغیر کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ صحابہ کے قلوب بہ برکت صحبت نبوی اس قابل تھے کہ ان کو اور قیود کی جو بعد میں حادث ہوئیں ضرورت نہ تھی ۔ ان کے قلوب میں صحبت نبوی کے فیض سے خلوص پیدا ہوچکا تھے ۔ ان کو اذکار کے قیود زائد کی حاجت نہ تھی برخالف بعد کے لوگوں کے کہ ان میں وہ خلوص بدون اہتمام کے پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے صوفیہ کرام نے کہ اپنے