ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
مانا جاو ے تب بھی صحیح ہے لیکن صرف اسی قدر کی اجازت ہو گی جتنا کہ ثابت ہے ۔ بزرگوں کے عرس کا طریقہ محض لغو ہے مع دلیل اور اور اس کا بیان کہ موت بزرگوں کے لئے وصل محبوب ہے اور جس طرح یوم ولادت کی خوشی کے اختراعات 1؎ باطل ہیں اسی طرح کسی کی وفات کی تاریخ کے کہ وہ دن بزرگوں کی خوشی کا دن ہے اختراعات بھی اور یہیں سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ آج کل جو لوگوں نے بزرگوں کے عرس کا طریقہ اختراع کیا ہے یہ بھی محض لغو اور تجاوز عن 2؎ ہے ۔ اصل حقیقت اس کی یہ تھی کہ عرس کے معنی لغت میں شادی کے ہیں اور حاصل شادی کا یہ ہے کہ حب کا محبوب سے وصل ہو پس چونکہ ان حضرات کی موت ان کے لئے وصل محبوب ہے اس لئے ان کے یوم وصال کو یوم العرس کہا جاتا ہے ۔ نیز ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب کسی مقبول بندہ کی وفات ہوتی ہے اور فرشتے اس کی قبر میں آ کر سوال کرتے ہیں تو سوال و جواب کے بعد کہتے ہیں نم کنومۃ العروس ( سو جاؤ دلہن کی طرح کا سونا ) تو وہ دن ان حضرات کے لئے یوم العرس ہوا ۔ اسی کو ایک بزرگ خوب کہتے ہیں خوشا روزے و خرم روز گارے کہ یارے بر خور دار وصل یارے ( کتنا اچھا ہے وہ دن کیسا مبارک ہے وہ دن وہ وقت کہ ایک دوست دوسرے دوست کی ملاقات کا پھل کھائے ) وصل دنیوی اور اخروی کا فرق اور گو وصل ان حضرات کو دنیا میں بھی ہوتا ہے تاہم اس وصل میں اور اس وصل میں فرق ہے کہ یہاں بے حجاب ہے اور وہاں بلا حجاب جیسا مولانا نے فرمایا ؎ گفت مکشوف و برہنہ کو کہ من می نہ گنجم با صنم در پیر ہن ( بولا وہ کھولا اور بے لباس کہاں ہے کیونکہ میں محبوب کے ساتھ کرتہ میں نہیں سما سکتا ) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ گھڑی ہوئی بے اصل باتیں ۔ 2؎ بے کار اور حد سے نکل جانا