ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
الی شبرا تقربت الیھ ذراعا کے یہی معنی ہیں ۔ تو صاحبو ! کیا یہ بات کچھ کم ہے کہ کام پیسے کا کیا جائے اور ملے ایک اشرفی خود (1) کہ یابدایں چنیں بازاررا کہ بیک گل می خری گلزاررا کہ دیا تو ایک پھول اور اس کے عوض مل گیا ایک باغ خوب کہا ہے نیم (2) جاں بستاند وصد جاں دہد آنچہ درد ہمت نیایدآں دہد کہ آدھی جان لے کر سینکڑوں جانیں دیتے ہیں غرض یہ ہے کہ جو تدبیر کرنے کی ہے لوگ اسے نہیں کرتے صرف ناتمام تدابیر پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ تدبیر پوری کرنی چاہیے ۔ تب فائدہ مرتب ہوتا ہے ۔ غفلت (3) عن الآخرہ تعجب کی بات ہے دیکھئے جب کسی سفر کا قصد ہوتا ہے تو اس کے لئے کس قدر سامان کرتے ہو کہ مثلا چار دن پہلے سے دھوبی کو حکم کرتے ہو کہ کپڑے جلدی دینا ۔ ناشتہ کا سامان کرتے ہو وغیرہ وغیرہ ۔ یہ نہیں کیا جاتا کہ عین وقت پر سامان کیا جائے بلکہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو بیوقوف بنائے جاتے ہیں اور خود بھی اپنے کو بے وقوف سمجھتے ہیں کیوں صاحب جب اس چھوٹے سے سفر کے لئے اتنے پیشتر سامان فراہم کیا جاتا ہے تو یہ موت کا اتنا بڑا سفر کتنے پہلے اور کتنا بڑا سامان چاہتا ہو گا ۔ کیونکہ یہ وہ سفر ہے کہ اس سے پھر کبھی واپسی ہی نہیں ہو گی ۔ پھر اس کے لئے کیا سامان مہیا کیا ۔ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو اطاعت خداوندی میں سرگرم ہیں دوسرے وہ جو مخالفت میں پھنسے ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لئے یہ سفر ۔ سفر رغبت (4) اور دوسری قسم کے لوگوں کے لئے سفر (5) رہبت ہے اور یہ دونوں صورتیں دنیا کے سفروں میں بھی ہوتی ہیں پس دیکھ لیجئے کہ اگر کوئی شخص کسی بادشاہ کا مدعو ہو جو کہ سفر رغبت ہو گا اس کے لئے کیا کچھ سامان پہلے سے کرے گا ۔ اپنے پاس نہ ہو گا تو دوسروں سے قرض لے کر مستعار ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) خود سے کون ایسا بازار پا سکتا کہ جہاں ایک پھول کے بدلہ تم پورا چمن خرید لیتے ہو ۔ (2) آدھی سی جان لیتے اور سینکڑوں جانیں عطا فرما دیتے ہیں بلکہ جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا وہ دے دیتے ہیں ۔ (3) قیامت اور دوسرے جہان سے غافل ہونا (4) شوق کا سفر (5) خوف کا سفر