ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
اب اگر کسی ظاہر میں شخص کے سامنے یہ دونوں قصے بیان کردئیے جائیں اور یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ قصہ کس کا ہے اور وہ کس کا تو ظاہر بات ہے کہ یہ شخص پہلے بزرگ کو جنہوں نے قہقہہ لگایا زیادہ با کمال سمجھے گا حالانکہ یہ مسئلہ مسلم وبدیہی ہے کہ دلی کسی حال میں نبی سے نہیں بڑھ سکتا ۔ اور یہ بھی مسلم ہے کہ اولیاء کے کمالات انبیاء کے کمالات سے مستفاد ہیں سو دراصل ان دونوں قصوں کی حقیقت یہ ہے کہ اس ولی کی نظر صرف حقوق حق پر تھی حقوق عباد واولاد کی اہمیت اس کے قلب سے مستور تھی اس واسطے حقوق عباد کا اثر ظاہر نہیں ہوا ۔ جو ترحم کی وجہ سے غم پیدا ہوتا اور انحضرت کی نظر دونوں حقوق پر تھی ۔ حقوق حق پر بھی اور حقوق عباد پر بھی اللہ تعالی کے حقوق کی رعایت سے تو صبر کیا اور جزع فزع نہیں کیا اور حقوق عباد یعنی ترحم علی الا ولاد کی وجہ سے آنسو جاری ہوئے سخت دلی نہیں کی ۔ انما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء اس کی ایک مثال ہے مثلا آئینہ کے دیکھنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو ضرورت سے خریدراری وغیرہ کی صرف آئینہ کے دیکھنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو ضرورت سے خریداری وغیرہ کی صرف آئینہ کو دیکھتے ہیں اس کی موٹا چوڑائی شفافیت پر ان کی نظر ہوتی ہے یہ مثال ہے محجوبین غافلین اہل صورت کی اور ایک وہ کہ صرف اس چیز کو دیکھتے ہیں جو کہ آئینہ میں منعکس ہوتی ہے اور آئینہ کو نیہں دیکھتے یہ مثال ہے غیر کاملین مغلوب الحال لوگوں کی یہ غلبہ حال سے مظہر کو نہیں دیکھتے صرف ظاہر کی دیکھتے ہیں اور ایک وہ جو آئینہ اور صورت منعکسہ دونوں کو دیکھتے ہیں اور کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں اس کو جمع الجمع کہتے ہیں ۔ یہ شان ہے انبیاء علیہم السلام اور عارفین کاملین کی کہ حقوق حق کی رعایت کے ساتھ حقوق عباد کی رعایت بھی ان سے نصب العین رہتی ہے یہ لوگ جامع ہیں برکفے جام شریعت در کفے سندان عشق ہر ہو سنا کے ندا ند و سنداں باختن ایسی باریکیوں کے سمجھنے کے واسطے بڑے فہم کی ضرورت ہے ورنہ بظاہر میں تو ناگوار نہ گزرنا زیادہ کمال معلوم ہوتا ہے بہ نسبت ناگوار گزرنے کے ۔ بعض حالات کمال سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ان میں نقصان پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح دوسری کیفیت وجدانیہ کے تفاضل میں اسی قسم کی غلطی واقع ہوتی ہے کہ