ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
حق تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں صرف عبدیت ہی کے لئے بھیجنا ہے پس معلوم ہوا کہ دنیا میں اس کو کسی دوسری بات کے حاصل کرنے کو بھیجا گیا ہے اور وہ حالت عبدیت ہے - یعنی دنیا میں انسان کو اس لئے بھیجا ہے کہ وہ امتثال او امر و نواہی کر کے عبدیت حاصل کرے کیونکہ جب تک اس عالم میں نہ آیا تھا تو محض روح تھا - اور روح بوجہ مجرد ہونے کے نہ قیام ہر قادر تھی نہ قعود پر نہ رکوع پر سجود پر تو روح کو اس عالم میں وہ ترقی کرنا جوان عبادات / 1 خاصہ پر موقوف ہے ممکن نہ تھا - اور یہ صفت بکمالہا اس میں پیدا نہ ہوتی اور جب صفت عبدیت مطلوب ہے تو جس کو اس سے تعلق ہو وہ مطلوب ہوگا - اسی معیار کی نسبت مولانا روم علیہ الرحمۃ اللہ ارشاد فرماتے ہیں - کار مرداں روشنی و گرمی ست کار دوناں حیلہ و بے شرمی ست ( اللہ کے مردوں کا کام تو روشنی اور گرمی ہے اور کمینوں کا کام مکاری و بے شرعی ) دو چیزیں اس شعر میں علامت کے طور پر بیان فرمائی ہیں ایک روشنی دوسرے گرمی روشنی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں سے بیٹھے ہوئے کلکتہ اور بمبئی نظر آنے لگے بلکہ یہ معنی ہیں کہ دل میں عرفان اور علم حقیقی پیدا ہوجائے اور گرمی سے مراد محبت ہے حاصل یہ ہوا کہ جس کو محبوب حقیقی سے محبت ہو اور معرفت حاصل ہو وہ مرد ہے - لیکن محبت قلبی صفات میں سے ہے جس کا احساس نہیں ہوسکتا اس لئے اس کے کچھ لوازم / 4 بیان کئے جاتے ہیں - محبت کے لوازم اور شیخ کامل کے صفات سب جانتے ہیں کہ انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے ایک تو اس کی یاد کسی وقت دل ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 نماز روزہ حج زکٰوۃ تلاوت وغیرہ دوسرے نفس شیطان سے مقابلہ کر کے کرنا ہے جو مقابلہ عبادت سے زیادہ سخت اور زیادہ افضل ہوتی ہے اور یہ مقابلہ وہیں ہوسکتا تھا جہاں ان کی بدیاں ہوسکتی تھیں - اس کے لئے دنیا ہے آخرت نہیں - / 2 پوری طرح بندہ ہونے کی صفت / 3 جس جس بات کو پورا بندہ ہونے سے / 4 لازمی باتیں جن سے ان کا ہونا معلوم ہوسکے