ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ان میں جوش دین پیدا ہوتا ہے جس کو لوگ تعصب کا غصہ سمجھتے ہیں اور وہ ایسا مطلوب ہے جس کے نہ ہونے سے 1؎ وہ شخص الٹ دیا گیا ۔ پس یہ شخص ظاہر میں نیک تھا اور واقع میں نیک نہ تھا ۔ پس وہ قاعدہ نہ ٹوٹا ۔ یا اگر وہ 2؎ واقع میں نیک بھی ہوں تو وہ صورۃ ہلاک ہوتا ہے اور معنی رحمت 3؎ رجوع بجانب سرخی ( مقتدا وہ ہو سکتا ہے جو کامل العقل ہو ) بہر حال یہ بات ثابت رہی کہ نیکیوں کی بعض برکات 4؎ اضطراری بھی ہوتی ہیں جس میں قصد اور اختیار کی ضرورت نہیں لیکن جو برکت اختیاری ہو گی اس کے لئے عقل کامل وافر کی احتیاج ہے ۔ سو ایسے لوگ ہی کامل العقل ہیں اہل ارشاد ہوئے ہیں اور بعض اولیاء اللہ جن سے کوئی تربیت عام کا کام متعلق نہیں ہوتا ایسے لوگ البتہ بھولے بھالے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے سپرد صرف اپنی ذات کاملہ ہے ۔ اور اس میں وہ اسی قدر کے مکلف ہیں جس قدر ان کو عقل دی گئی ہے ۔ کسی دوسرے شخص کی تربیت ان کے متعلق نہیں سو حاصل یہ ہوا کہ جن لوگوں کے متعلق تربیت عام ہے جیسے انبیاء امت جو مسند ارشاد پر متمکن ہیں ایسے لوگ بھولے بھالے نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ بڑے فطین پورے عاقل ہوتے ہیں ۔ اور یہی کامل ہیں اور جن لوگوں کے متعلق کسی دوسرے کی تربیت نہیں ہوتی بلکہ محض اپنے ہی نفس کے لئے پیدا ہوتے ہیں یہ لوگ البتہ بھولے بھالے ہوتے ہیں اس لئے بعض نے یہ تقسیم کی ہے کہ انسان چار قسم کے ہیں ۔ ایک وہ جن کو دین کی عقل نٓبھی ہے اور دنیا کی عقل بھی جیسے انبیاء اور ورثۃ انبیاء یعنی وہ علماء جو مسند ارشاد پر متمکن ہیں دوسرے وہ جن کو دین کی عقل ہے اور دنیا کی نہیں جیسے بھولے بھالے صلحاء اولیاء امت ۔ تیسرے وہ جن کو دین کی عقل نہیں ہے اور دنیا کی عقل ہے جیسے عاقل کفار چوتھے وہ جن کو نہ دنیا کی عقل نہ دین کی عقل جیسے بیوقوف کفار ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ جس کے متعلق جبرائیل علیہ السلام نے الٹنے کو پوچھا تھا ۔ 2؎ اس واقعہ سے الگ اگر کہیں عذاب عام آئے اور وہاں کچھ لوگ ظاہر و باطن ہر طرح سے بالکل نیک ہوں مگر وہ عذاب ان پر صورت میں عذاب اور حقیقت میں رحمت ہوتا ہے ۔ 3؎ اور یہ شبہ کہ دونوں کے اجتماع میں کس کا اثر ظاہر ہو گا اس کا جواب یہ ہے کہ غالب یا کثیر کا اول جیسا ما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم اور ثانی جیسا حدیث ہے قلنا یا رسول اللہ انھلک و فینا الصالحون قال تعمھم اذا 4؎ بے اختیار کی جن میں ان کے کرنے نہ کرنے کا دخل نہ ہو جیسے حضور ﷺ کے وجود سے کفار پر سے عذابات کا ٹل جانا ۔