ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
بعض باتین کمال سمجھی جاتی ہیں حالانکہ ان میں کوئی نقص خفی ہوتا ہے جیسے مبالغہ فی التواضع مفضی ہوجاتا ہے ناشکری کی طرف کیونکہ اس میں ایہام ہوجاتا ہے انکار نعمت کا ۔ ایسا ہی بعض آدمی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے ذکر وشغل کیا مگر کچھ نہیں ہوا اور سمجھتے ہیں کہ یہ کہنا انکسار ہے حالانکہ علاوہ ناشکری نعمت ذکر کے اس میں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ذکر و شغل کو اس قابل سمجھا کہ اس کو قبول کیا جاوے اور اس کے صلہ میں ان کو بڑا رتبہ دیا جاوے اور یہ کبر ہے ۔ ذاکر کو ثمرات کا طالب نہ ہونا چاہیے یہ نفس کے بڑے بڑے مکر ہیں ان لوگوں کو یہ خبر نہیں کہ ذکر خود ایک مستقل نعمت ہے ۔ حکایت : ہمارے حضرت حاجی صاحب سے اگر کوئی خادم اس قسم کی شکایت کرتا تو آپ فرماتے کہ خود ذکر کی توفیق ہونا کیا تھوڑی نعمت ہے جو دوسرے ثمرات کی تمنا کرتے ہو اور اکثر ایسے موقع پر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔ یا بم اور ایا نیا بم جستجوئے مے کنم حاصل آید یا نیام ید آرزوئے مے کنم بلا بودے اگر ایں ہم نہ بودے الخ کسی خادم نے حضرت سے بیان کیا تھا کہ میں نے اب کے چلہ کھینچا اور روزانہ سوا لاکھ اسم ذات پڑھا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ شاید حضرت مجھ سے ناراض ہیں کہ ثمرہ نہیں ملا ۔ فرمایا کہ اگر میں ناراض ہوتا تو تمہیں سوالاکھ پڑھنے کی توفیق ہی کہاں ہوتی اور ثمرات کے طالب ایک اور بہت بڑی غلطی میں ہیں کیونکہ وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ ثمرات اصل مقصود ہیں اور اعمال مقصود بالعرض اور یہ سخت غلطی ہے ۔ اعمال خود مقصود بالذات ہیں اور اصل ثمرہ ان کا حصول رضا دخول حبت دیدار خدا وندی ہے ۔ افسوس کہ طالب ثمرات عشق میں مجنون سے بھی کم ہیں وہ تو لیلٰی کے نام کی مشق کو بڑا مقصود سمجھ رہا ہے اور یہ لوگ دوسری چیزوں کی تلاش میں ہیں ۔ کیا مولی کا عشق لیلٰی کے عشق سے بھی کم ہے ۔ دید مجنوں رایکے نورد در بیابان عمش ہنشستہ فرد