ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
سکتا اور یہ کہہ کر دعا کی کہ اے اللہ جس طرح تونے اپنے نبی موسی علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کیا اسی طرح آج ہم کو ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی برکت سے پار اتار دے ۔ اور دعا کرکے گھوڑا دریا میں ڈال دیا ۔ دریا پایا ب ہوگیا اور سارا لشکر پار ہو گیا ۔ اور مشہور حکایت ہے کہ ایک مولوی صاحب بسم اللہ کے فضائل میں وعظ فرمارہے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر جو کام کریں وہ پورا ہوجاتا ہے ۔ ایک جاہل گنوارنے سنا اور کہا یہ ترکیب تو اچھی ہاتھ آئی ۔ ہر روز کشتی کے پیسے دینے پڑتے ہیں ۔ پس بسم اللہ پڑھ کر دریا سے یاراترجایا کریں گے ۔ چنانچہ مدتوں وہ اسی طرح سے آتا جاتا رہا ۔ اتفاق ایک روز مولوی صاحب کی دعوت کی اور گھر لے جانے کے واسطے انکو ساتھ لیا ۔ راستے میں وہی دریا آملا ۔ مولوی صاحب کشتی کے انتظار مین رکے اس نے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر آجایئے ۔ میں تو ہمیشہ بسم اللہ ہی پڑھ کر اتر جاتا ہوں مولوی صاحب کی تو ہمت نہ ہوئی مگر اس نے ان کا ہاتھ پکڑا اپنے ساتھ ان کو بھی ہاراتا دیا یہ قوت یقینیہ ہی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالٰٰی نے اس کو آسان کردیا ۔ اسی وجہ سے بعض بزرگ تعویز دیتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ اس کو کھولنا مت ورنہ اثر نہ ہوگا ۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ کھولنے سے دیکھنے والا وہی معمولی کلمات سمجھ کر ضعیف الیقین ہوجاتا ہے اور اثر نہیں ہوتا ۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوگیا کہ تھوڑے بہت اسباب جمع کرکے اللہ تعالٰٰی کے بھروسہ دعا کی جائے تو اللہ تعالٰٰی اس تھوڑے حیلہ میں یقین کی برکت سے سب کچھ دے دیتا ہے اور یہی معنی معلوم ہوتے ہیں واجعلوا فی الطلب و توکلوا علیہ کہ تدبیر اور مباشرات اسباب میں اختصار ہو ۔ اجعلو اس کی طرف اشارہ ہے اور نظر تقدیر پر ہو وتوکلوا علیہ میں اس کی طرف اشارہ ہے روزی کا مدار محض تدبیر پر نہیں ہے اور اسکا ایک نہایت بد یہی ثبوت اور در حقیقت اگر روزی صرف سعی وتدبیر ہر ہی موقوف ہوتی تو اکثر آدمی حکمت اتدبیر سے غنا حاصل کرسکتے تھے ۔ مگر غنا اور تمول دیکھا جاتا ہے کہ حکمت اور تدابیر اور سعی پر