ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
سے کام لینا یا سرکاری اصول کے خلا فاس کی بے قدری کرنا جائز نہیں ۔ اہل اللہ اسی بناء پر کبھی اپنے نفس کی بھی قدر کرنے لگتے ہیں اور عام لوگ کچھ اور سمجھ جاتے ہیں در نیا بدحال بختہ ہیچ خام پس سخن کو تاہ باید والسلام سو وہ حضرات اس حیثیت سے اپنے نفس کی قدر کرتے ہیں اکہ وہ اس نفس کا سرکاری چیز سمجھتے ہیں اور اسی طرح ہاتھ پاؤں دماغ یہ سب سرکاری مشینیں ہیں جن کو ہمارے سپرد کیا گیا ہے ۔ اگر ہم اپنی نے اعتدالی سے ان کو بگاڑیں گے تو خود مورد عتاب مستو جب عذاب بنیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف ارشاد ہے کہ ان لنفسک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا وہ ۔۔۔۔۔۔ اگر اپنے دل ودماغ آنکھ کی حفاظت اور خدمت اس نیت سے کریں گے کہ یہ ہمارے مولا کی سپرد کی ہوئی چیزیں ہیں ان کی عزت اور حرمت خدمت وحفاظت ہم پر بوجہ عبدوخادم ہونے کے ضروری ہے تو اس میں بھی ثواب ملے گا ۔ یہی معنی ہیں انماالاعمال بالنیات کے اور اس مرتبہ میں کہ ان اعضاء کو محبوب سے تعلق ہے کسی نے کہا ہے نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است افتم بپائے خود کہ بکویت رسیدہ است ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خویش را کودا منت گرفتہ بسویم کشیدہ است اور بعض کے کلام سے جو ان اشیاء کا اپنی طرف منسوب ہونا اور اس نسبت کے درجہ میں ایسے اقوال صادر ہوتا ہے جیسے کہا گیا ہے بخدا کہ رشکم آید زر وچشم روشن خود کہ نظر دریغ باشد بچنیں لطیف روئے تو یہ غلبہ ہے حال کا ورنہ اہل مقام کی تحقیق وہی ہے ۔ جس چیز کو محبوب کے ساتھ تعلق ہوتا ہے وہ بھی محبوب ہوجاتی ہے مع ایک مثال کے حکایت : حضرت جنید بغدادی سے کسی نے کہا جب آپ کو دولت وصول ہوچکی ہے تو اب کیوں تسبیح رکھتے ہیں آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ میاں جس کی بدولت ہم کو یہ دولت ملی کیا