ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
دیکھ لیجئے یہ گناہ کسی طرح سب بے کھٹکے کرتے ہیں ۔ اور خیال میں بھی نہیں لاتے ۔ البتہ شراب نہیں پئیں گے ۔ تو یہ تفاوت اسی عادت ہوجانے سے ہے کہ اصرار واستخفاف بلکہ استحسان کی نوبت آجاتی ہے اس لئے توبہ مشکل ہوجاتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو زبان جیسے کسی نے کہا کے ۔ سجہ در کف بہ برلب دل پراز ذوق گناہ معصیت راخندہ می آید برااستغفار ما چنانچہ ان امور متذکرہ بالا سے توبہ تو کیسی اور الٹے ان امور کے ترک کو خلاف ریاست اور ذلت سمجھتے ہیں اور گناہ سے دل برا نہیں ہوتا حالانکہ ایمان کی نشانی یہ ہے ۔ اذا سرتک حسنتک وساء تک سیتک غرض توبہ ان وجوہ سے مشکل ہوجاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ توبہ کے بھروسہ گناہ کرنا کرنا نہایت حماقت ہے مگر بعض نادان پھر بھی دھوکہ میں ہیں اور توبہ کے توقع پر گناہوں پر دلیری کرتے ہیں ۔ اس شخص کی ایسی مثال ہے کہ اس کے پاس مرہم ہو اور اس کے بھروسے وہ اپنی انگلیاں آگ میں جلالیتا ہو کیا یہ شخص پورا احمق نہیں ہوگا کیا کسی عاقل نے کبھی ایسا کیا ہے جب اس آگ پر دلیری نہیں کی جاسکتی ۔ تو دوزخ کی آگ تو اس آگ سے ستر حصہ زیادہ تیز ہے ۔ بلکہ مرہم تو بھی من کل الوجوہ اختیاری ہے اور تو گو بظاہر اختیاری ہے مگر مرہم کی طرح من کل الوجوہ اختیاری نہیں کیونکہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ التوبھ ندم جس کو یوں بھی تعبیر کیا ہے ۔ وھو تحرق الحشاء علی الخطا وتالم القلب علی الاثم پس توبہ اس سوزش اور جلن کو کہتے ہیں یہ معلوم ہے کہ تالم مقولہ انفعال سے ہے اور وہ اختیار سے خارج ہے ۔ توبہ کے متعلق ایک شبہ اور اس کا جواب البتہ اس پر ایک طالب علمانہ شبہ ہوتا ہے کہ جب توبہ امر اختیاری نہیں اور حسب الارشاد ولایکلف اللہ نفسا الا وسعھا کے غیر اختیاری کی تکلیف دی نہیں گئی تو پھر توبوا کا امر کیوں کیا گیا اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اختیاری کی دو قسم ہیں ایک وہ جوخود اختیاری میں ہو دوسرے وہ کہ اس کے اسباب اختیار میں ہوں سوتو بہ بایں معنے اختیاری ہے کہ اس