ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
حکایت : ایک شخص نے کسی مقام پر پہنچ کر ایک مجمع میں بیٹھ کر کہنا شروع کیا کہ میں جب یہاں آتا تھا تو ایک عورت سے میری آشنائی ہوئی ۔ اور میں اس کے گھر جایا کرتا تھا اور اس کا گھر ایسا تھا اور اس کا شوہر ایک بار آ گیا تھا اور اس نے مجھ کو اس طرح چھپا دیا تھا اور اس مجمع میں اس عورت کا شوہر بھی تھا اور اس کے پکڑنے کی فکر میں تھا ۔ اب یہ اقراری مجرم مجمع عام کے سامنے ہو گیا ۔ جرم ثابت ہونے میں کوئی حجت باقی نہ رہی اس عورت کو خبر ہوئی اور کچھ اشارہ کر دیا ۔ جس کو یہ سمجھ گیا اور تمام قصہ ختم کر کے آخر میں کہہ دیا کہ بس اتنے میں آنکھ کھل گئی تو کچھ بھی نہ تھا ۔ لوگوں نے کہا کہ کیا یہ سب خواب تھا ۔ کہنے لگا کہ اور نہیں تو بھلا میں غریب پردیسی مجھ کو کون پوچھتا ہے تو ایسی تاویل آپ حضرات ہی کو مبارک ہو غرض یہ کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنی غرض کے مطابق جہاں چاہو اور جس طرح چاہو کر لو (1) مگر افسوس ہے کہ ہم کو اس کی ذرا پروا نہیں ۔ وہ حالت ہو رہی ہے کہ بر (2) ہوا تاویل قرآن می کنی پست و کرشداز تو معنی سنی چوں (3) ندارد جان تو قندیلھا بہر بینش می کنی تاویلہا کردہ (4) تاویل لفظ بکررا خویش را تاویل کن نے ذکررا اہل درد ہر مضمون سے اپنے مقصد کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور میں علی سبیل التنزل کہتا ہوں کہ اگر یہ معنی نہ بھی ہوں اور تذرون مقید ہی ہو اعتقادی ترک کے ساتھ تب بھی آپ کو بے فکر نہ ہونا چاہیے کیونکہ جس دل میں درد ہوتا ہے اس کو تھوڑے سے التفات سے بھی (6) تنبہ ہو جاتا ہے گو وہاں دوسری ہی کسی حالت کا بیان ہو مشہور ہے کہ باسایہ (3) ترا نمی پسندم عشق است دہزار بدگمانی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) تاویل کر لو ۔ (2) تم اپنی خواہش نفسانی پر قرآن مجید کی تاویل کرتے ہو تمہاری حرکت سے قرآنی بہترین معنے پست اور ٹیڑھے ہو گئے (3) جب تمہاری جان قندیلیں نہیں رکھتی ( علوم نبوی کی روشنیاں نہیں رکھتی تو اب اس کو دیکھنے کو تاویلیں کرتے ہو (4) تم نے اچھوتے لفظ کی تاویل کر ڈالی تم تو اپنے کو تاویل کرو ( رضا کی طرف رجوع کرو ) قرآنی لفظوں کی تاویل نہ کیا کرو (5) نیچے اترنے کے طریقہ پر (6) توجہ (7) میں آپ کو سایہ کے ساتھ بھی پسند نہیں کرتا کیونکہ عشق ہوتا ہے تو ہزاروں بدگمانیاں ہوتی تو جیسے باوجود سایہ سے کسی بات کا احتمال نہ ہونے کے عشق میں گوارا نہیں ہوتا اگر آیت میں عقیدہ میں ہی ترک آخرت اور محبت دنیاداری ہوتی عمل میں ترک و محبت کا احتمال بھی نہ ہوتا تب بھی عشق اس قریبی چیز کو گوارا نہیں کر سکتا ۔