ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ایں سبیہا در نظر ہا پردہا است درحقیقت فاعل ہرشے خدا است کب فلک کو یہ سلیقہ ہے ستمگاری میں کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں عارفین اس بات کو سمجھے اور حقیقت حال معلوم کرکے یوں گویا ہوئے عشق من پیدا ومعشوقم نہاں یار بیروں فتنہ او در جہاں کہاں میں اور کہاں یہ نگہت گل نسیم صبح تیری مہر بانی آب وخاک وباد وآتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند مثنوی میں اس یہودی بادشاہ کی حکایت ہے جو مسلمانوں کو بتوں کے سجدے پر مجبور کر کے آگ میں ڈلواتا تھا ۔ یہاں تک کہ اخیر میں یہ قصہ ہوا کہ وہ آگ میں نہیں جلتے تھے ۔ اس پر اس یہودی بادشاہ نے آگ سے مجنونانہ غصہ میں یہ خطاب کیا کہ تجھے کیا ہوگیا تو نہیں جلاتی تو آگ نہیں رہی ۔ آگ نے باذن خالقہا جواب دیا گفت آتش من ہمانہم آتشم اندر آتا تو بہ بینی تا بشم پھر اس گستاخی کا یہ انجام ہوا بانگ آمد کار تو ایں جا رسید پائے دار اے سگ کہ قہر ما رسید دیکھئے وہی آگ تھی ایک جلایا ایک کو نہ جلایا ۔ اس سے یہ بات بہت وضاحت سے ثابت ہوگئی کہ اسباب بھی بااختیار حق ہیں ۔ جب یہ ہے تو اسباب کے اعتماد پر حالق سے قطع نظر واستغناء کرنا بڑی غلطی ہے غرض امور اختیار یہ ہوں یا غیر اختیار یہ سب میں دعا کی حاجت ثابت ہوئی امور اختیار یہ میں دعا کے ساتھ تدبیر بھی کرنی چاہیئے اور مباشرت اسباب کا فائدہ البتہ امور اختیار میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تدبیر بھی کی جائے اور دعا بھی ۔ یہ نہ ہو کہ بلا تدبیر صرف دعا پر اکتفا کیا جائے ۔ مثلا کوئی شخص اولاد کی تمنا رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اول نکاح کرے اور پھر دعا کرے اور بے نکاح کے اگر یونہی چاہے کہ اولاد