ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
فن کے مجتہد گزرے ہیں اذکار واشغال خاصہ اور ان کی قیود ایجاد کیں اس وجہ سے کہ تجربہ ے معلوم ہوا ہے کہ خلوت میں جب ایک ہی اسم کا بہ تکرار ورد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ضرب وجہر وغیرہ قیود مناسبہ کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے تو اس کی تاثیر نفس وقلب میں اوقع واثبت ہوتی ہے اور رقت وسوزپیدا ہوکر موجب محبت ہوجاتا ہے اور محبت سے عبادت میں اخلاص پیدا ہوتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی عبادت خالص کا حکم فرماتے ہیں ۔ وما امرو الا لیعبد االلہ مخلصین لھ الدین وامرت ان اعبد الخ الآیات پس معلوم ہوا کہ حضرت صوفیہ نے یہ قیود ذکر کے بطور معالجہ تجویز فرمائے ہیں اور اصل مقصود ہی اخلاص ہے ۔ پس اگر کسی شخص کو ان قیود سے مناسب نہ ہو یا بغیر ان قیود کے کسی کو اذکار مسنون نوافل وتلاوت قرآن میں پورا اخلاص پیدا ہوسکتا ہوتو صوفیہ کرام ایسے شخص کے لئے ان قیود کی ضرورت نہیں سمجھتے پس اب معلوم ہوگیا کہ یہ تمام قیود اصلاح وتقویت کے واسطے علاجا تجویز کئے گئے ہیں کوئی شرعی امر قربت مقصود وہ نہیں سمجھا جاتا جو بدعت کہا جائے ۔ رجوع بجانب سرخٰ ( دستور العمل برائے سالک الخ ) الحاصل یہ دوسرا استور العمل تھا اہل سلوک کے واسطے یعنی تلاوت قرآن اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں انا سنلقی علیک ثقیلا اس کو ماقبل سے اس طور پر ربط ہے کہ مراد قولا ثقیلا سے وحی ہے جوکہ ثقیل تھی اور نماز اور تلاوت کلام مجید کی مزاولت قوت احتمال اثقال وحی پیدا ہوگی ۔ اس لئے پہلے نماز اور تلاوت کا حکم فرمایا پھر انا سنلقی میں وحی کا وعدہ کیا اب اس کی تحقیق کہ نزول وحی کے وقت ثقل معلوم ہونے کا کیا سبب تھا سو یہ امر عقول متوسطہ سے خارج ہے باقی روایات سے ثقل ہونا ثابت ہے چنانچہ نزول وحی کے وقت وانٹنی کا بیٹھ جانا اور ایک صحابی کا یہ قول کہ نزول وحی کے وقت ( جبکہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی ران ان کی ران تھی ) یہ معلوم ہوتا تھا کہ میری ران بیٹھی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت شدت سرما میں بھی نزول وحی کے وقت پسینہ آجاتا اس ثقل کے آثار روایات میں وارد ہیں اور ان آیات میں کہ الم نشرح لک صدرک ووضعنا