ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
قرآن شریف جمال حق کے لئے آئینہ ہے اور اسکی خوبیاں قرآن کی تعریف میں ایک بزرگ فرماتے ہیں ؎ چیست قرآن اے کلام حق شناس رو نمائے رب ناس آمد بہ ناس ( قرآن شریف اے حق کلام کو پہچاننے والے کیا ہے یہ لوگوں کے رب کا جلوہ لوگوں کو دکھانے والا بن کے آیا ہے ) حرف خرفش راست دربر معینے معینے در معینے در معینے ( اس کے ایک ایک کی بغل میں میں معنے ہیں اور معنی میں معنی معنی میں معنی ) اور رونما اس واسطے کہا کہ خدا تعالیٰ کو دنیا میں بلا واسطہ تو دیکھ نہیں سکتے - پس کلال اللہ کو پڑھنا گویا دیدار خداوندی سے محظوظ /1 ہونا ہے اس موقع پر ایک حکایت یاد آئی - اس سے اس کی پوری حقیقت ظاہر ہوگی - ایک مرتبہ ایران کے بادشاہ کے خیال میں اتفاقا ایک مصرع آگیا - ع در ابلق کسے کم دیدہ موجود مصرعہ کہہ کر بڑی خوشی ہوئی لیکن دوسرا مصرعہ تیار نہ کر سکے - شعراء کو جمع کیا اور مصرعہ لگانے کی فرمائش کی - کسی سے مصرعہ نل لگ سکا کیونکہ ایک مہمل مضمون آخر سب کو زندان کی دھمکی دی - ان لوگوں نے پریشان ہو کر ہندوستان میں عالمیگر کے پاس خط لکھا کہ تمہارے یہاں بڑی بڑی شاعر ہیں کسی سے مصرعہ کہلا کہ ہماری جان بچاؤ - چنانچہ شعراء کو وہ مصرعہ دیا گیا لیکن مضمون ایسا بے تکا تھا کہ کسی کی کچھ کچھ سمجھ میں ہی نہ آیا - شدہ شدہ زیب النساء متخلص بہ مخفی کو بھی اس کی خبر پہینچی - اس بھی غور کیا لیکن مصرعہ نگ سکا - اتفاقا ایک روز مسند پر بیٹھی آنکھوں میں سرمہ ڈال رہی تھی - آئینہ سامنے تھا کہ سرمہ کی تیزی سے آنکھ سے ایک آنسو گرا اس کی ہیئت کو دیکھ کر فورا دوسرہ مصرعہ اس کے ذہن میں آگیا - ع مگر اشک بتان سرمہ آلود ( سوائے حسینوں کے سرمہ ملے ہوئے آنسو کے ) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 لطف اندوز - / 2 ابلق یعنی سیاہ وسفید موتی کسی نے کم موجود دیکھا ہوگا -