ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کے ساتھ بھی ہو تب بھی تنہا نماز سے بدرجہ بڑھ کر ہے اس لئے کہ وہ شرعا مطلوب ہے - اور قطع وساوس اس درجہ مطلوب نہیں ؎ چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں خاخ بر فرق قناعت بعد ازیں ( جب بادشاہ دین ہی ہم سے لالچ لرنے کو چاہیں تو پھر اسکے بعد قناعت کے سر پر خاک ہو ) افسوس ہے کہ بعض اکابر کو یہ دھوکہ ہوگیا کہ اگر جماعت کی نماز میں وسوسے آویں اور تنہائی میں اجمتاع قلب ہو تو تنہا نماز پڑھنا بہتر ہے - جماعت کو چھوڑ دینا چاہیے - حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور اس کو ہم اپنی رائے سے غلط نہیں کہتے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی تغلیط فرمائی ہے - ہم ان بزرگوں پر اعتراض نہیں کرتے ہم صرف ان کی غلطی کا اظہار کرتے ہیں - حاصل سابق نماز عید کے لئے عیدگاہ میں اجمتاع کا مطلوب ہونا اور بچوں کے وہاں لے جانے کی ممانعت غرض چونکہ شریعت میں اجمتاعی مصلاح کی زیادہ رعایت ہے اور ظاہر ہے کہ جو اجتماع عیدگاہ میں ہوگا مجسد میں نہ ہوگا لہٰذا گو جما عید گاہ کا ثواب زیادہ نہ ہو لیکن کیفا زیادہ ہے اس لئے باوجود کسی مفسدہ کے اس میں جمع ہونا ترک نہ کریں گے بلکہ اس میں جو مفسدہ بچوں کے اجتماع کا ہے اس کی اصلاح کریں گے اور ہم خود کیا اصلاح کریں گے ہمارے نبی کریم علیہ الصوٰۃ والتسلیم خود اس کی اصلاح فرماگئے ہیں - ارشاد ہے جنبوا مساجد کم صیبا نکم کہ اپنئ مسجدوں سے اپنے بچوں کو علیحدہ رکھو لیکن یہ ممکن ہے کہ کوئی صاحب عیدگاہ کو مجسد میں داخل نہ کریں - اس لئے استدلال مذلور کا کافی نہ سمجھیں تو ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہ مساجد /1 کم میں دو احتمال ہیں یا تو اس کو عام لیا جاوے کہ مطلق مقام /3 صلوٰۃ مراد ہو تب تو عید گاہ اس حکم میں داخل ہونا ظاہر ہی ہے اور اگر اس کو عام نہ لیا جاوے تو گو ان الٖفاظ میں عید گاہ داخل نہ ہوگی لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر علت اس حکم اس حکم کی کیا ہے - سو ظاہر ہے کہ علت اس حکم کی یہی ہے کہ چونکہ بچے پاک صاف نہیں ہوتے ان کی آمد ورفت سے ایسی جگہ کے ملوث ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 گو تعداد کے اعتبار سے نہ ہو کیفیت میں تو ہوگا /2 اپنی مسجدوں /3 اہر ایک سجدہ گاہ یعنی نماز کی جگہ