ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
قرب کا قصد کیا اور وعدہ ہے کہ من تقرب الی شبرا تقربت الیہ ذراعا و من تقرب الی ذراعا تقربت الیہ باعا ( جو میری طرف ایک بالشت قریب آئے گا میں اس کی طرف ایک ہاتھ آؤں گا - اور جو میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوگا میں اس کی طرف چار ہاتھ قریب ہوں گا ) کہ جو میری طرف تھوڑا سا بھی بڑھتا ہے میں اس کی طرف بہت سا بڑھ جاتا ہوں اور ظاہر ہے کہ خدا کا قرب اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ قرب باطنی میسر ہو جائے تو لازم آگیا کہ درستی ظاہر سے قرب باطنی نصیب ہوتا ہے - مولانا اسی کو فرماتے ہیں تشنگاں گر آپ جوینداز جہاں آب ہم جوید بعالم تشنگاں ( پیارے لوگ اگر دنیا سے پانی ڈھونڈتے ہیں تو پانی دنیا میں پیاسوں کو ڈھونڈتا ہے ) وہ پانی ہے کہ پیاسے کو ڈھونڈنے نہیں ملتا بلکہ وہ خود پیاسے تک پہنچتا ہے یہ شرط ہے کہ پیاس ہو ورنہ خدا پر بار نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو سر مڑھیں - ارشاد ہے انلزمکموھا و انتم لھا کٰرھون یعنی کیا ہم رحمت کو تمہارے سر مڑھ دیں باوجود یہ کہ تمہارے دلوں میں اس سے کراہت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو اس قدر خشوع و وخضوع بڑھا ہوا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ذات خداوندی حضور ﷺ کو ہر وقت پیش نظر تھی - عبدیت - 1 - ونیز عقلی مصلحت کا بھی یہی مقتضا ہے کہ علل / 2 سے سوال نہ کیا جائے اور جب یہ ہے تو ہم کو بھی سن کر بس یہی چاہئے کہ زبان تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو ( زبان کو آپ کی ذات صفات کے اقرار سے تازہ رکھتا ہے اور آپ کے کاموں کی وجہوں کو نکالنا نہیں ہے ) اور قطع نظر اس کے کہ یہ مقتضاء عبدیت کا ہے ہمارے لئے مصلحت عقلا بھی یہی ہے اور اگر واقعی یہ کاوش ہمارے لئے مضر نہ ہوتی تو حضور ہم کو اجازت دیتے ممانعت نہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 بالکل بندہ ہونے کا / 2 علتوں اور حکمتوں کی وجہوں کا