ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
توبہ اور گناہوں کی مثال یاد رکھو کہ توبہ کی مثال مرہم کی سی ہے اور گناہ کی مثال آگ کی سی ہے - مرہم تو اس لئے ہے کہ اتفاق سے اگر جل جاوے تو مرہم لگادیا جاوے - اس لئے نہیں کہ اس اعتماد پر کہ ہمارے پاس مرہم ہے - آگ میں جھلسا کریں - جس شخص کے پاس نمک سلیمانی ہو اس کو یہ کب روا ہے کہ جان جان کر بہت سا کھایا کرے نمک سلیمانی تو اس واسطے ہے کہ اگر اتفاق سے بہت کھا جاوے تو نمک سلیمانی کھالیا جاوے اس سے ہضم ہوجاوے گا اور جو ایسا کرے گا تو ایک روز جان سے ہاتھ دھوئے گا - اسی طرح جو شخص توبہ کے اعتماد پر گناہ کرتا رہے گا ایک دن عجب نہیں وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے - غرضیکہ توبہ کے بھروسہ گنا کرنا بہت حماقت ہے / 1 بہ نسبت اور اعضاء کے زبان کی درستی زیادہ ضروری ہے اور اس کی درستی سے تمام اعضاء کی درستی ہوجاتی ہے اس تمام تر تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ طریقہ اصلاح اعمال و محو ذنوب کا فقط اتنا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لو - تو اسی سے تمام اعمال درست ہو جاویں گے اور زبان کی درستی بھی اگرچہ اس میں داخل ہے مگر پھر زبان کی درستی کو استقلالا /2 طریقہ کا جزو کیوں بنایا گیا اس میں کیا راز ہے پس بجائے اتقوا اللہ وقو لوا قولا سدیدا ( اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کہو ) کے یوں فرماتے یایھا الذین آمنو اتقوا اللہ یسدکم لکم لسانکم و یصلح لکم الخ ( اے ایمان والو اللہ سے ڈرو وہ تمہاری زبان ٹھیک کردیں گے اور تمہارے عمل نیک بنادیں گے اور گناہ بخش دیں گے ) یوں نہیں فرمایا بلکہ و قولوا قولا سدیدا کا اتقو اللہ - پر عطف /3 کیا - اور اس کو مستقل طریقہ قرار دیا تو وجہ اس کی یہ ہے کہ اعمال بہت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1خصوصا جبکہ موت کا واقت معلوم نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ موت آنے کے وقت اتنی مہلت مل سکے گی یا نہیں جس میں توبہ کرلی جائے اگر ہاٹ فیل فالج یا ایکسیڈنٹ جیسی اچانک بات ہوگئی تو کیا ہوگا اور جیسے غغور رحیم حق تعالیٰ کی صفتیں ہیں جبار و قہار منتقم بھی صفتیں ہیں اگر ان میں سے کسی کا ظہور ہوگیا کیا ہوگا اس لئے ہر وقت توبہ ضروری ہے - / 2 الگ مستقل طور سے / 3 جیسے ذر کو مستقل طریقہ فرمایا ٹھیک بات کو بھی مستقل قرار دیا -