ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
یہ دوسرا سبب تھا دعا کے نہ کرنے کا یعنی اپنے آپ کو دعاء کے قابل نہ سمجھنا جس کی اصلاح پوری طور سے کردی گئی اس خیال کی تردید کہ دعا قبول تو ہوتی ہوتی ہی نہیں پھر دعا کیا کریں : اب تیسرا سبب بیان کیاجات ہے وہ یہ کہ بعضے یہ سمجھ دعا نہیں کرتے کہ قبول تو ہوتی ہی نہیں پھر دعا سے کیا فائدہ ۔ سو خود یہی سمجھنا غلط ہے کہ خدا وندی تعالٰٰی قبول نہیں کرتے ۔ واقع میں موانع قبول دعا خود اپنی ذات میں ہوتے ہیں مثلا دل خشوع وخضوع کے ساتھ جو روح ہے دعا کی دعا نہ کرنا ۔ محض زبان سے کہہ دینا حدیث میں ہے ان اللہ لایستجیب الدعاء من قلب لاہ سو یہ قصور اپنا ہے رونہ وہ ذات تو سب پر مہربان اور اس کا فیض سب پر محیط ہے اپنے میں قابلیت نہ ہو تو اس کا کیا علاج اس کے الطاف تو ہیں عام شہید سب پر تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا ہم لوگوں کی تو یہ حالت ہے توبہ برلب سبحہ برکف دل پراز ذوق کناہ معصیت را خندہ مے آید بر استغفار ہا اور مثلا گناہ کی بات کی دعا کرنا حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی قبول کرتا ہے جب تک گناہ اور قطیعہ ،، رحم کی دعا نہ ہو ، ہو بعض دفعہ اکثر دعائیں گناہ کی ہوتی ہے اب ان کا قبول نہ کرنا ہی خدا تعالی کی رحمت ہے مثلا موروثی زمین کے جھگڑے میں مالکانہ قبضہ کی دعا خود گناہ ہے ۔ ایسے ہی بعض بزرگوں سے دعا کراتے ہیں کہ ہمارا لڑکا فلاں امتحان میں پاس ہوجائے اس کو ڈپٹی کلکڑی تحصیلدار مل جائے ۔ سو یہ دعا ہی سرے سے ناجائز ہے کیونکہ حکومت کی اکثر ملازمتیں خلاف شرع ہیں ۔ مشائخ کے اپنے بعض متعلقین کی ناجائز ملازمتیں نہ چھڑانے کی وجہ اور یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بزرگوں کے متعلقین بعض ڈپٹی کلکڑی تحصیلداری وغیرہ حکومت کے عہدوں پر سوتے ہیں سو اگر یہ نوکری ناجائز ہے تو وہ بزرگ ان کو کیوں نہیں روکتے جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ ہیں تو یہ نوکریاں ناجائز مگر جو لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ان